Thursday 30 July 2015

بنجوسہ جھیل


  ہمیں است و ہمیں است
 ( بنجوسہ جھیل)


بنجوسہ پہنچ کر بچوں نے خوب سیر و تفریح کی، یہ تفریحی مقام سطح سمندرسے تقریباساڑھے پانچ ہزار فٹ بلند ہے اور گرمیوں میں نہایت خوشگوار موسم کا حامل ہے۔  یہاں  حکومت کی طرف سے سیاحوں کے لیے  ایک ریسٹ ہاؤس  بنایا گیا ہے، جو دور سے بہت خوبصورت نظر آتا ہے۔ یہاں پر ایک جھیل بھی  موجود ہے جس میں کشتی رانی سے لطف اندوز   ہوا جا سکتا ہے۔  ہمارے لوگ جہاں بھی جاتے ہیں کھانے کی فکر پہلے ہی آڑے آ جاتی ہے، ہم بھی اپنے ساتھ بریانی اور دیگر اشیاءِ خوردو نوش ساتھ لے کر گئے تھے۔ لہٰذہ  سب سے پہلے دسترخوان کے لیے موزوں جگہ ڈھونڈی اور سیر ہو کر کھانے تناول فرمایا۔ کھانا کھانے کے بعد جی کر رہا تھا کہ اب بس  دسترخوان پر  لیٹے لیٹے ہی قدرت کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہوا جائے۔۔لیکن بچوں کی ضد تھی کہ مزید آگے جایا جائے اور قدرتی حسن کو ایکسپلور کیا جائے۔  قدرت کے حسین مناظر سے فارغ ہو کر  ہم کشتی میں سوار ہو گئے ۔ جھیل میں تیرتی ہوئی کشتی سے قدرتی مناظر اور بھی دلکش اور پر کشش دکھائی دینے لگے جنھیں میں نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔کشتی کا سفر اسقدر  پر سکون  اور دلآویز تھا کہ  میں اب بھی آنکھیں بند کروں تو لگتا ہے کے پھر بنجوسہ پہنچ گیا ہوں اور دلکش وادی کا نظارا کر رہا ہوں۔ میں آج بھی یہی سوچتا ہوں کہ اگر حکومت اس سیاحتی مقام کی طرف مزید توجہ دے  یا کم سے کم سڑکوں کا نظام ہی بہتر کر دیا جائے تو  ایسے اور  اس جیسے کئی دوسرے تفریحی مقامات  سیاحتی مرکز بن سکتے ہیں اور مقامی لوگوں کا ذریعہ روزگار بہتر ہو سکتا ہے۔ لیکن شاید آزاد کشمیر ایک  متنازعہ علاقہ  ہے لہٰذا   اسکو پس ماندہ ہی رہنا چاہیئے اور عصرِ حاضر کی موجودہ دوڑ میں بھلا اس علاقےکے لوگوں  کا کیا کام۔

بنجوسہ  سے نکلے تو یہ طے پایا کہ ہجیرہ کے راستے  تتہ پانی سے ہوتے ہوئے واپس کوٹلی جایا جائے   اور  ہماری گاڑی کا رخ   ہجیرہ کی طرف  ہو گیا۔ ہجیرہ  ایک نہایت ہی خوبصورت  شہر ہے ۔ جب ہم وادیوں سے ہوتے ہوئے شہر میں  داخل ہوئے تو سڑک تنگ ہونی کی وجہ سے دو گاڑیوں کا بآسانی گزرنا محال تھا۔ ہجیرہ کی  دیسی موٹھی کی  دال کافی مشہور ہے  میں نے بازار میں دکانوں پر کافی نظر دوڑائی کی جلدی جلدی سے دال کہیں  نظر آجائے لیکن ایسا نہ ہو سکا ، ایک جگہ کشمیری کلچے جو کہ تازہ تازہ  تنور سے نکل رہے تھے  دیکھ کر میرے منہ میں پانی آگیا اور میں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی  ک دکاندار سے کلچے  لینے میں مصروف ہو گیا۔ اتنے میں ہارن کی  آوازیں آنے لگیں، میں نے پیچھے دیکھا تو گاڑیوں کی  کافی لمبی لائن لگ چکی تھی اور  لوگوں کا پیمانہءِ صبر لبریز ہو چلا تھا۔ میں نے کلچہ والے بھائی کو جلدی میں  پیسے دیے اور شکریہ  ادا کر کے ہم آگے  طرف روانہ ہو گئے۔  ہماری گاڑی پھرسے خوبصورت  وادیوں اور   بل کھاتی  ہوئی سڑکوں پر سے ہوتی ہوئی تتہ پانی کے مقام پر پہنچ  چکی تھی۔

جاری 

2 comments: