Tuesday 29 October 2019



پاکستان سے پالستان تک کا سفر۔


مطالعہ پاکستان ایک ایسا مضمون یا مشین کہہ لیجئے ہے جسکا بر صغیر کی  ھزاروں سالہ تاریخ کو کوزے میں انتہائ مہارت سے بند کر نے میں کوئ ثانی نہیں۔  یہ ہماری پاکستانی قوم  کی آج تک کی  ایک ایسی ایجاد ہے جو  ٹائم مشین کا کام کرتے ہوئے پورے ھندوستان کی تاریخ کو فاسٹ فارورڈ کر کے انتہائ خوبصورتی سے  تقسیم ہند تک لے آتی ھے اور پھر اسکے بعد ایکدم پاکستان کی تاریخ شروع ھو جاتی ہے جسے جب  اور جیسے چاہا کی بنیاد پر ضرورت کے مطابق  فاسٹ فارورڈ بھی  کر لیا جاتا  ھے۔ 
لفظ پاکستان کے خالق چوھدری رحمت علی کے مطابق "پ" پنجاب سے "الف" افغانیہ سے "ک" کشمیر سے، "س" سندھ سے اور "تان" بلوچستان سے لے کر ایک نام تخلیق کیا گیا جسے  پاکستان کا نام دیا گیا۔ ان تمام حروف کی ترتیب بدل دی جائے یا کوئ حرف حذف کر لیا جائے  تو پاکستان لفظ  کا وجود  خطرے میں پڑ جاتا ھے ۔ شاید یہ چوہدری رحمت علی خان صاحب کی دور بینی ہی تھی جو  بنگال کو لفظ پاکستان میں شامل نہیں کیاکہ مبادا مستقبل کے حالات کے پیش نظر لفظ پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے۔ اور دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اس مرد قلندر کی مستقبل شناسی کی وجہ سے بنگال کے علیحدہ ھونے کے باوجود  "لفظ"  پاکستان کی سالمیت پر کوئ آنچ نہ آ سکی ویسےبھی بنگال کی تو لفظ پاکستان میں کوئ گنجائش بنتی ہی نہ تھی۔ اب اگر ان تمام حروف جن سے مل کر پاکستان بنا ھے  "پ"  پنجاب کے علاؤہ افغانیہ، سندھ، بلوچستان، اور کشمیر کے حالات کو اگر دیکھا جائے تو ان میں محرومیوں کے آثار زیادہ  پائے جاتے ہیں۔ یہاں کی عوام کسی نہ کسی شکل میں حکومت یعنی  "پ " سے خائف ہی رہتے ہیں۔ ان علاقوں کی محرومیوں کا اندازہ وہاں پر موجود عوامی کو دی گئ  سہولیات سے بخوبی لگایا جا سکتاھے۔ بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقے تو اب بھی سولہویں صدی میں جی رہے ہیں۔ یہ  وہ علاقے ہیں جو پاکستان کے براہ راست کنٹرول میں ہیں لیکن بقول مطالعہ پاکستان ایک حرف "ک" کشمیر جو اسکے براہ راست کنٹرول میں تو نہیں لیکن اسے شہہ رگ کی حیثیت حاصل ہے اور حالت یہ ھے کہ آدھی سے زیادہ شہہ رگ پر ھندوستان کا قبضہ ھو چکا ھے۔اب اگر چوھدری رحمت اللہ صاحب کے فلسفہ لفظ پاکستان کو مد نظر رکھا جائے تو تصویر کچھ یوں بنتی  ھے کہ "ک" یعنی کشمیر کی دم تو ھندوستان نے کاٹ لی ھے پیچھے دم کٹا "ک" رہ گیا ھے۔ یعنی۔ چوہدری  صاحب کا فلسفہ  پاکستان سے شروع ہو کر  پالستان تک آن پہنچا ھے۔ اب مستقبل میں اس فلسفہ کیساتھ کیا کیا ھونا ھے یہ مطالعہ پاکستان کی ٹائم  مشین  بنانے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے کتنا فاسٹ فارورڈ کرسکتے ہیں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ  شہہ رگ کے بغیر کسی بھی وجود کا زندہ رہنا ناممکنات میں سے ہے۔ یا تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ھو گا کشمیر شہہ رگ نہیں ھے ، یہ آدھی ہو ، پوری ھو یا پھر نہ ھو اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا،  یا  یہ کہ لفظ پاکستان کا فلسفہ اب اتنا جاندار نہیں رہا، یا پھر یہ کہ یہ ایک من گھڑت بات ہے ۔ 
 مسئلہ کشمیر جو گزشتہ 71 سالوں سے ابھی تک حل طلب ھے۔ اس دوران پاکستان اور کشمیر کےلوگوں نے کتنے نشیب و فراز دیکھے لیکن یہ قضیہ جسے شہہ رگ بھی کہا جاتا ھےمزید الجھتا ہی گیا۔ آج یہ حالات ہیں کہ بھارت نے کشمیر کو باقاعدہ اپنا حصہ بنا لیا ھے لیکن افسوس کہ شہہ رگ کا راگ الاپنے والوں کو اپنی شہہ رگ کٹ جانے کا احساس تک نہیں ھوا۔ 
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب کشمیر میں لوگ اپنا  تن من دھن پاکستان کے لیے قربان کرنے کو تیار تھے لیکن وقت کے تھپیڑوں نے آہستہ آہستہ لوگوں  کے دلوں میں ایک متبادل سوچ  کو جنم دیا جو خود مختار کشمیر کی شکل میں سامنے آنا شروع ھوئ۔ یہ سب کیسے ممکن ھوا؟   جو لوگ پاکستان کو اپنا محور مانتے تھے انکے دل میں ایک ازاد اور خود مختار ریاست کا بیج کیسے پیدا ھو گیا؟  یہ لوگ ایک متبادل رستے کے انتخاب پر کیوں مجبور ھوئے۔؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر آجتک مملکت خداد سوچنے اور سمجھنے سے قاصر رہی ھے۔۔ 
ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے، ہمیں اس محور یعنی مملکت خداد پاکستان  کا تنقیدی جائزہ لینا ھو گا جن سے انکے اپنے لوگ دن بدن خائف ھوئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے حالات شروع دن سے ہی اس قدر غیر مستحکم رہے ہیں کہ یہ کسی کی کیا خود اپنی مدد کرنے سے قاصر رہا ہے۔ ملک میں ہمیشہ سے ایک طبقہ حاکم چلا آیا ہے اور دوسرا وہ طبقہ ہے جو انکے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ھے جسکا بڑا حصہ عوام پر مشتمل ہے۔ یہ حاکم طبقہ محکوم  طبقے کی کبھی مذھب کے نام پر اور کبھی وطن کے نام پر گاہے بگاہے برین واشنگ کرتا رہتا ھے تا کہ   کسی نہ کسی شکل میں اپنی اجارہ داری قائم  رکھ سکے۔ اس عمل کے لیے مفاد پرست عناصر اس حاکم طبقے کے تلوے ہر وقت چاٹنے پر مامور رہے تا کہ انہیں بھی اس میں سے بقدر ضرورت حصہ عنایت فرمایا جائے۔
 مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی کاوشوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان جس نے ہمیشہ ھر فورم پر مسئلہ کے حل کے لیے  اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ہمیشہ "کہنے کی حد تک"  زور دیا۔  پاکستان  نے چار جنگیں کشمیر کے نام پر  تو لڑ لیں لیکن  اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے سے پس وپیش سے کام لیا جاتا رہا۔ حکمرانوں کے اس رویہ سے حکومت پاکستان کا کشمیر سے والہانہ عشق کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ھے۔ حالت یہ ھو چکی ہے کہ شہہ رگ کا راگ الاپنے والوں کی شہہ رگ تو کٹ چکی ھے مگر وہ پھر بھی کس قدر کمال ہوشیاری سے زندہ ہیں یہ کوئ ان سے سیکھے۔ 
بحیثیت کشمیری آج اگر پاکستان کے حالات پر نظر دوڑائ جائے تو  معلوم ھو گا کہ ایسے حالات میں کسی بھی قسم کے  مستحکم مستقبل کی ضمانت نظر نہیں آتی ۔  ایک عام   کشمیری بھی یہ سوچنے پر مجبور ھو چکا ھے کہ کب تک ہم اس نظام کا حصہ بننے کی سعی لا حاصل کرتے رہیں گے جو اندر سے کھوکھلا ھو چکا ھے۔ کشمیر کو آزاد دیکھنے والے کشمیری اب ان بے تعبیر خوابوں اور نظام سے تنگ آ چکے ہیں، اور ریاست کی  مکمل آزادی کا خواب دیکھنے والوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ھوتا جا رہا ھے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ھے، یہ وہی نوجوان ہیں جو آنے والے کل میں  کشمیر کا مستقبل بنیں گے۔  خودمختار کشمیر کی بات کرنے والے لوگوں کی سوچ صرف کشمیر کی خودمختاری پر ہی محیط نہیں ھے بلکہ وہ اسکے ساتھ ساتھ  ایک ایسی ترقی پسند سوچ کے بھی قائل ہیں جہاں جمھوری حکومتیں برادریوں، وڈیروں اور ان دیکھی مخلوق کے دم پر نہیں بلکہ خالصتاً عوام کے ووٹ کی طاقت پر قائم ھونگی،  منافقانہ نظام کا خاتمہ  ھو گا، جہاں پر لوگوں کے حقوق کو غصب نہیں کیا جائے گا بلکہ سب کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع اور حقوق حاصل ہوں گے اور جہاں ایک مزدور کو بھی ایک با عزت زندگی گزارنے کا حق مل سکےگا۔ 
آج جو لوگ الحاق پاکستان کی بجائے خودمختار کشمیر کی بات کرتے ہیں وہ پاکستانی حکام کے منافقانہ اور متعصبانہ نظام سے تنگ آ چکے ہیں۔ انہیں جب سندھ ، بلوچستان اور پشتونوں  کے حالات نظر آتے ہیں تو وہ بھی  کشمیر کے پاکستان سے الحاق  سے  کچھ زیادہ پر امید نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں قوم پرست  اپنی قومی آزادی اور ترقی پسندانہ نظریات کی بات پہلے سے زیادہ کھل کر کر رہے ہیں۔