Wednesday 23 August 2017

کشمیر کمیٹی اور مسئلہ کشمیر


کشمیر کمیٹی اور مسئلہ کشمیر



محمود خان اچکزئی اپنی خیالات اور صاف گوئی کی وجہ سے  جانے جاتے ہیں۔ یہاں میں باالخصوص انکے کشمیر کے متعلق رائے کے بارے میں بات کروں گا۔کیونکہ یہ پاکستان کے ایسے جراءت مند اور دلیر سیاست دان ہیں جو کشمیر کی مکمل آزادی کی بات کرتے  ہیں اور اسی وجہ سے انھیں پاکستان کے چند تنگ نظر لوگوں سے غدار کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں۔ لیکن ایک حق گو اور بے باک شخص  کو  اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ تنگ نظر اسکے بارے میں کیا رائے زنی کرتے ہیں۔خان  صاحب کشمیر  کے بارے میں جو رائے ہے وہ کشمیریوں کی اکثریت کی رائے کی  عکاس ہے۔اگر پورے پاکستان میں کوئی سیاستدان مسئلہ کشمیر کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کشمیر کی آزادی کی بات کرتا ہے  تو ہمیں محمود خان اچکزئی کے علاوہ اور کوئی نہیں  نظر نہیں آتا۔  اسی وجہ سے محمود خان اچکزئی کشمیری عوام میں  زیادہ مقبول ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کا چیئر مین اس شخصیت کو ہونا جو مسئلہ کشمیر کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ، انکے حقوق اور رائے کا ترجمان ہو۔ اسکے لیے محمود خان اچکزئی سے زیا دہ موزوں  اور با اثر شحصیت اور کوئی نہیں ہو سکتی جو کشمیریوں کی آواز کو پاکستان  کے ایوانوں میں پہنچا سکے  ۔ پاکستان کی عوام کو بھی اب سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ  ایک آزاد و خود مختار کشمیر ہی پائیدار پاکستان  کی ضمانت ہے۔
ہماری بدقسمتی سمجھیے یا پھر حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر سے کس قدر مخلص ہے اسکا  اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جو شخص کشمیر کمیٹی کا چئیر مین تعینات کیا ہے وہ مسئلہ کشمیر سے اسقدر نابلد ہے کہ موصوف اخبار میں بیان دیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔۔جی ہاں میں مولانا فضل الرحمان صاحب ہی کی بات کر رہا ہوں۔ جنہیں پاکستان میں عرف عام میں مولانا ڈیزل کا لقب بھی دیا گیا ہے۔ ماشاءاللہ کیا لقب پایا ہے ، میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ انہیں یہ لقب کیوں دیا گیا، لیکن انکے اس بیا ن نے میری مشکل آسان کر دی۔ بحیثیت ایک  کشمیری میں مولانا سے سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ  کشمیر کے نام پر تنخواہ اور دیگر فنڈز جو وہ ڈکار رہے ہیں اسکے بدلے میں انھوں نے کشمیریوں کے لیے کیا مثبت کام سر انجام دیا ؟
پچھلے ستر عشروں سے پاکستان اور بشمول آزاد کشمیر کی عوام جس دلدل  اور جبرو استحصال کی چکی میں پستی رہی ہے اب اس نظام کو بدلنے کا وقت آگیا ہے،ہمیں اب منفی رویوں  اور استحصالی نظام کو اپنے دل میں جگہ نہیں دینی چاہئے،ہمیں اب روشن خیالی سے کا م لینا ہے اور اپنے معاشرے میں ایسی اقدار کو قائم کرنے کی کوشش کرنا  ہے جو دوسروں کے حقوق ،  انکی رائے  اور اختلافِ رائے کا  احترام کرنا  سکھائے۔ 

Monday 7 August 2017

کشمیر موٹے شیشے کی عینک سے

 کشمیر موٹے شیشے کی عینک سے

مسئلہ کشمیر اس قدر گھمبیر ہوتا جا رہا ہے کے ہمیں خود آج تک اس بات کا علم نہ ہو سکا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو وزیر اعظم فاروق حیدر صاحب کا  کہ ان کی  طرف سے کی گئی پریس کانفرنس کے ردِ عمل میں چند  پاکستانی میڈیا اور سیاسی شخصیات  نے   ہمیں یہ بتایا کہ اصل میں ہمیں کس چیز کی مانگ کرنی چاہیےاور  دراصل کشمیری جو 1931 سے   جس تحریک کے لیے  جدو جہد کر رہے ہیں وہ انتہائی غلط ہے ، اسکا تو سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔
 ہم اپنے  ان  ہم درد دوستوں کے انتہائی مشکور   ہیں ، کہ انھوں نے ہمیں ہماری سب سے بڑی خوش فہمی  کی حقیقت  سے آگاہ کر دیا۔ ہمیں تو آج تک یہ پتہ ہی نہ تھا کہ آخر ہم کیا چاہتے ہیں؟۔ پاکستان کے بڑے بڑےخود اختیاری  دانشوروں نے میڈیا میں  ظہور فرما کرجو کہ   حقِ خود ارادیت  کی  اصطلاح سے ہی نابلد ہیں   آزاد کشمیرکے وزیرِ اعظم کے خلاف گھٹیا زبان استعمال  کرنے  سے ذرہ بھر بھی گریز نہ کیا ۔ یہ دراصل ان تمام کشمیریوں کے لیے کھلا پیغام ہے   جوحکومتِ  پاکستان کو اپنا محسن مانے ہوئے ہیں، کہ تم کشمیریوں کی  کیا مجال  کہ تم اپنے  مستقبل کا فیصلہ خود بہ ہوش و حواس کر سکو،  تم لوگ  تو اسقدر حقیر ہو کہ جب چاہیں تمہیں ذلیل کر دیں۔  یہ وہی منافق  ہیں کہ جو خود تو خود اختیاری طور پر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر ، سینئر صحافی، اور سینئر لیڈراور نہ جانے کیا کیا القاب  تو لگا لیتے ہیں، لیکن کسی قوم کے حقِ خود اختیاریت یا خود ارادیت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔یہ ہم سے کہتے ہیں کہ  کشمیری قوم کو اپنے حقِ خود ارادیت کی اصطلاح کو اب حقِ خود پاکستانیت میں تبدیل  کر دینا چاہیے۔
کشمیر میں  کیے گئے تمام سروے  رپورٹ کے مطابق عوام کی معروف رائے یہی سامنے آئی  ہے کہ کشمیری ایک آزاد ملک چاہتے ہیں۔ یہی سوال جب انڈیا کے لوگوں سے پوچھا گیا تو زیادہ تر لوگوں نے کشمیر کی آزادی کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس کے بر عکس  ہمارے  کچھ پاکستانی بھائی کشمیر کی آزادی کے حق میں باالکل منفی رویہ رکھتے ہیں اور کشمیر ی انکی نظر میں ایک حقیر اور  ادنیٰ غلام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس تمام پسِ منظر کے پیشِ نظر ریاست جموں کشمیر کی عوام کو اب ایک عدد موٹے شیشے کی عینک درکار ہے جس سےوہ اپنی  بینائی کی سمت کو درست کر سکیں۔  جی ہاں ہمیں ایک ایسی ہی عینک چاہیئے جو تصویر کے اصل رخ کو ہمارے پردہ بصارت تک  اس کمال سے پہنچائے کہ ہمارا دماغ اس منظر کی حقیقتِ حال  کا بخوبی تعین کر سکے۔