Tuesday 10 November 2020

بیگم لیاقت علی اصل میں کون تھیں۔ who was Begum Liquat Ali Khan


پاکستان کی تاریخ میں شیلا آئرین  روتھ پنت کا کیا کردار تھا  

 شیلا آئرین روتھ پنت نے کب اور کیوں اسلام قبول کیا اور کس نام سے جانی گئیں

بہت کم لوگوں اس بات سے واقف ہیں کہ بیگملیاقت علی کا اصل۔نام شیلا آئرین روتھ پنت تھا اور  انھوں نے شادی کے بعد اسلام قبول کیا اور بیگم رعنا لیاقت علی کے نام سے جانی گئیں۔ بیگم لیاقت علی کے حالات زندگی کے بارے میں شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ شیلا آئرین روتھ پنت سے رعنا لیاقت علی کیسے بنیں۔ شیلا ائرین روتھ پنت ۱۹۰۵ میں الموڑہ میں  برٹش انڈین آرمی میجر جرنیل ہیکٹر پنت کے گھر ، پیدا ہوئِیں جو کہ ہندوستان کے اتر کھنڈ میں واقع ہے۔

click on link to watch video

انکے دادا ایک اعلی زات کے برہمن اور کام کے لحاظ سے وید یا جسے ہم حکیم کہتے ہیں، کے پیشے سے منسلک تھے۔ جنہوں نے ہندومت مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت قبول کر لی تھی۔ عیسائیت قبول کرنے پر انکے رشتہ داروں نے جو کہ انکے ساتھ والے گھر میں رہتے تھے اپنے گھر کو انسے الگ کرنے کے لیے  درمیان میں ایک اونچی دیوار کھڑی کر دی تھی اور بچوں کو سخت ہدایت کی کہ انکے گھر کی طرف دیکھنے کی کوشش بھی نہ کریں۔ آئرین پنت یعنی رعنا لیاقت نے ابتدائ تعلیم لکھنو کے لال باغ سکول سے حاصل کی اور پھر وہیں کے آئ ٹی کالج میں مزید تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔ مشہور مصنفہ قراۃ العین حیدر، عصمت چغتائی بھی اسی کالج  تعلیم حاصل کی تھی ۔ آئرین روتھ بیگم رعنا لیاقت کیسے بنیں اسکے پیچھے بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ بیہار میں سیلاب آنے کی وجہ سے لکھنو یونیوسٹی کے طلبا نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک پروگرام کر کے لوگوں کے لیے فنڈز جمع کریں گے۔ آئرین روتھ بھی اس کالچ میں پڑھتی تھیں اور پروگرام کے ٹکٹ بیچنے کے لیے جو پہلا دروازہ انھوں نے کھٹکھٹیا وہ لیاقت علی خان کا تھا۔ آئرین نے انہیں دو ٹکٹ خریدنے کو کہا۔ لیکن انھون نے بتایا کہ وہ اس شہر میں کسی کو نہیں جانتے، جس پر آئرین روتھ نے کہا کہ وہ کسی کو انکے ساتھ شو دیکھنے کا انتظام کریں گی، اگر کوِئی نہ ملا تو  پھر وہ  خود انکے ساتھ شو دیکھ لیں گی۔ بعد میں لیاقت علی خان اپنے ایک دوست مصطفی رضا کے ساتھ یہ شو دیکھنے گئے۔  آئرین دلی میں ایک کالچ میں لیکچرار تھیی جب انھین پتہ چلا کہ لیاقت علی خان کو لیجیسلیٹو اسمبلی کا سربراہ منتخب کیا گیا ہے۔ تو انھوں نے خط لکھ کر لیاقت علی خان کو مبارک باد بھی دی۔ جواب میں لیاقت ٰعلی خان نے لکھا کہ '' وہ لکھنو جاتے ہوئے دلی سے گزریں گے ،  تو کیا وہ انکے  ساتھ چائے پینا پسند کریں گی۔ جس پر آئرین نے دعوت قبول کر لی، اور پھر اسکے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا اور بات ۱۹۳۳ میں شادی تک جا پیہنچی۔  لیاقت علی خان ان سے دس سال بڑے تھے اور پہلے سے شادی شدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بچے کے باپ بھی تھے۔ لیاقت علی خان کی پہلی بیوی کا نام جہاں اراء تھا جو انکی کزن بھی تھیں۔ ۔16 اپریل ۱۹۳۳ کو لیاقت علی خان اور آئرین روتھ پنت کا نکاح ہوا، جہاں انھون نے اسلام قبول کیا اور انکا نام گل رعنا رکھا گیا۔ 

پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے اپنا۔  اورنگزیب روڈ والا بنگلہ رام کرشن ڈالمیہ کو فروخت کیا ۔  وہیں لیاقت علی خان نے اپنا بنگلہ پاکستان کو عطیہ کر دیا جو آج بھی انڈیا میں تعینات پاکستانی سفیر کے زیر استعمال ہے۔ لیاقت علی خان نے اپنے گھر کی ہر ایک چیز پاکستان کو عطیہ کر دی تھی ، اور صرف زاتی استعمال کی چند چیزیں ہی پاکستان اپنے ساتھ لائے تھے۔ پاکستان آ کر لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے اور بیگم رعنا خاتون اول ، لیاقت علی خان نے انکو اقلیتوں اور خواتین کی بہبود کی وزارت دی جس پر انھوں نے با احسن طریقے سے اپنے فرائض انجام دیے۔ 

 چار سال بعد جب لیاقت علی خان کو  راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران قتل کر دیا گیا تو لوگوں کا خیال تھا کہ بیگم رعنا واپس انڈیا چلی جائیں گی۔ ابتدا میں  میں بیگم رعنا نے کافی مشکلات دیکھیں، کیونکہ لیاقت علی خان انکے لیے کوئی جائیداد یا پیسہ نہیں چھوڑ کر گئے تھے،  حکومت پاکستان نے انہیں ماہانہ دو ہزار روپے وظیفہ مقرر کیا اور اسکے بعد انہیں ہالینڈ میں سفیر کے طور پر بھیج دیا گیا۔  بیگم رعنا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر بڑی اچھی گرفت رکھتی تھین۔  انکی قابلیت کی وجہ سے ہالینڈ نے انہیں اپنے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا، ہالینڈ کی ملکہ سے انکے بڑے اچھے مراسم تھے ، ملکہ نے پاکستان کے لیے انھین ایک عالیشان گھر سستے داموں خریدنے کی پیشکش کی جو آج بھی ہالینڈ میں پاکستانی سفارت خانہ کے عملے کے زیر استعمال ہے۔۔۔  ان تمام خدمات کے باوجود ایوب خان کے دور میں انہیں زیر عتاب لایا گیا ۔ ایوب خان چاہتے تھے کہ وہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں الیکشن لڑین، جس پر بیگم رعنا نے صاف انکار دیا تھا۔ 

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر بھی بیگم رعنا نے ضیاء الحق کے خلاف احتجاج  میں قیادت کی اور جنرل ضیاء کی بھر پور مخالف کی۔  بیگم رعنا لیاقت ۳۰ جون ۱۹۹۰ کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں لیکن اپنے پیچھے جدو جہد، جرات و بہادری کی داستان چھوڑ گیئں۔


Wednesday 26 August 2020

ڈاکٹر میں کا تاریخ کشمیر اور مسئلہ کشمیر پر ٹیسٹ لازمی کرنے کامطالبہ Doctor Main Funny Mirpuri-Pahari video : wife writing vlog on Kashmir

 ڈاکٹر میں کا مطالبہ

ڈاکٹر میں ایک مزاحیہ کردار ہے جو حالات حاضرہ پر اپنے منفرد انداز میں بات کرتا ہے ۔ 

ڈاکٹر میں  کا کہنا ہے کہ کشمیر کے تمام خود ساختہ لیڈروں اور آزادی کشمیر سے متعلق جماعتوں کا تاریخ کشمیر ہر امتحان لیا جانا چاہئے۔ تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ وہ تاریخ کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے کس قدر
آگاہی رکھتےںہیں۔ وہ مزید کیا کہتے ہیں  سنئے اس وڈیو میں۔

Click the link to watch full video 

Doctor Main's Wife and Kashmir  

 

Tuesday 30 June 2020

ڈاکٹر میں Doctor Main funny Mirpuri-Pahari video

ڈاکٹر میں۔  پہاڑی زبان میں مزاحیہ وڈیو

کرونا وائرس لاک ڈاون کی وجہ سے لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں می موٹاپے کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔ ڈاکٹر میں نے بھی اپنے ڈا ئٹنگ پر دھیان دینا شروع  کر دیا ہے۔ لیکن وہ آخری بات ایک پراٹھا اور آملیٹ کھانے کا اپنی بیوی سے مطالبہ کر رہے ہیں، انکی بیوی انھیں کیا کہتی ہے سننے کے لیے ملاحظہ کیجئے ڈاکٹر میں کی مزاحیہ وڈیو۔ 
 




Click on link to watch full video





Monday 29 June 2020

ڈاکٹر میں کا کرونا وبا کے دوران لوگوں کے طرز عمل پر مزاحیہ تبصرہ۔ Doctor Main funny Mirpuri-Pahari video about Corona


مزاحیہ کردار ڈاکٹر میں کرونا کی وبا کے دوران روز روز کے مہمانوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ اور لوگوں سے جان چھڑانے کے لیے خود کو کرونا مریض ظاہر کرنے کا بہانہ کر رہے ہیں۔ 

Funny character Doctor main pretends to be   to be sick to get rid of daily guest in his house.

To watch full video, pls click on link 👇


#DoctorMain #Funny #Mirpuri #Pahari #Video

Saturday 27 June 2020

Osama Bin Laden is Shaheed says PM Imran Khan

کیا اسامہ بن لادن کو شہید کہاجاسکتا ہے

ڈاکٹر میں کا اپنے مزاحیہ انداز میں تبصرہ

Usama Bin Laden is a Martyre says Prime Minister Imran Khan

 وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں تقریر کے
 دوران اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انکی زبان پھسل گی لیکن کچھ 
اسے ریاستی پالیسی تصور کر رہے ہیں۔
 لیکن ڈاکٹرمیں اس پر اپنے انداز میں مزاحیہ تبصرہ کرتے ھوئے کیا کہتے ہیں  سننے کے لیے وڈیو دیکھئے  

#DoctorMain #ImranBinLaden , #PTI 


مزید حالات حاضرہ پر مزاحیہ تبصروں کیلیے یو ٹیوب چینل کو وزٹ کریں۔ شکریہ
For more videos click 👇 on the link.

http://www.youtube.com/toqeerlone

  





Sunday 21 June 2020




ڈاکٹر میں اپنے انداز میں آزاد کشمیر عبوری آئین کی 14ویں ترمیم پر مزاحیہ تبصرہ کرتے ھوئے


For more videos. 👇

for more Comdey videos click👇


Funny remarks by Doctor Main, How Doctor sees 14th amendment introduced by Pakistan in AJK interim Constitution.
@farooq_pm @tariqfarooq60
#AzadKashmir #LetKashmirSpeak #letkashmirdecide

Doctor Main is a comic character who gives his funny remarks on current affairs.


Tuesday 16 June 2020


India China fight on Ladakh Galwan Border



Click on the link to watch full video

https://www.youtube.com/playlist?list=PLRKdDzWjwsMTgs2VtLHCGfG9nTsLxPpsj

Tuesday 9 June 2020

Uzma Khan viral video and Doctor Main's funny comments





To watch full video click on the link below

https://youtu.be/jakMdpygENY

Cynthia D Ritchie Accuses Rehman Mali. Doctor Main gives his funny Remarks



Click on the link to watch the Video
https://youtu.be/uoK1Wk9I7F4

Sunday 3 May 2020

ہجرت



ہجرت

آؤ کہ ہم ہی کوچ کر جائیں
یہ بستی، یہ نگری یہ کوچہ و بازار
بھرے پڑے ہیں زندہ لاشوں سے
دیکھتے سنتے تو ہیں پر  بولتے نہیں
عقل رکھتے تو ہیں پر سوچتے نہیں
انکی سوچوں پہ پہرے ایسی مخلوق کے
جو دکھتی تو ہے پر دکھائ دیتی نہیں
یہ بستی یہ نگری یہ کوچہ و بازار
ہیں مالک اسکے جو سمجھتے ہیں یہ
کہ زر اور زور پر انہیں کا ھے حق
وہ چاہیں تو کچھ بھی کر گزریں یہاں
مسجدوں کے مکین منبروں کے امین
 خدا کی وراثت کے جو دعویٰ دار ہیں
زر اور زور کے جو آلہء کار ہیں
کوئ انسے کہے ، ہم بھی ہیں یہاں
جن پہ زر، زور اور مذھب کا رعب جماتے ہو تم
 نہ ھوں گے ہم تو تمہاری یہ شاہ زوریاں
پتھروں ، بنجروں، اور پہاڑوں سے جب
ٹکرا کہ واپس آئیں گی
صرف  تمھیں پائیں گی
 شاید  پھر تمھیں اسبات کا احساس ھو
 جا چکے ہیں جو  واپس وہ آتے نہیں
دل ناتواں کو اب یہ سہلاتے نہیں
اک بازگشت تمھارے کانوں میں جو
آ آ کہ تم کو یہ بتلائے گی
  کہ آ ؤ
ہم بھی کوچ کر جائیں 
آؤ کہ ہم بھی
 کوچ کر جائیں۔
        توقیر لون                                                                   


Friday 20 March 2020

ھرڈ ایمیونٹی، کرونا کا علاج




"کرونا کا علاج "ھرڈ امیونٹی



ماہرین کےمطابق اگر ایک مرتبہ لوگوں کی اکثریت کرونا 
وائرس کا شکار ھو  جائے تو یہ وائرس خود بخود ختم ھو سکتا ھے۔
کرونا وائرس پر قابو پانے کے بنیادی طور پر تین طریقے ہیں ایک یہ کہ لوگوں کے میل ملاپ اور اجتماعات پر سخت پابندی عائد کر دی جائے اور تمام لوگوں کا کرونا وائرس ٹیسٹ یقینی بنایا جائے جس سے اسکی منتقلی کو روکا جا سکتا ھے۔ لیکن یہ اب مشکل اسلیے ھو چکا ھے کہ یہ دنیا کے 100 سے زاید ممالک میں پھیل چکا ھے ۔
دوسرا طریقہ ایسی ویکسین کی ایجاد ھے جو مکمل طور پر کارگر ثابت ھو۔ گو کہ تجربات تیزی سے جاری ہیں لیکن فی الوقت یہ تاخیر کا شکار ھے۔ 
اس وائرس پر قابو پانے  کا  تیسرا طریقہ یہ ھے کہ ہم اسوقت تک انتظار کریں کہ جب تک یہ لوگوں کی اکثریت کو اپنا شکار نہیں بنا لیتا اور لوگ خود بخود اسکے خلاف قوت مدافعت پیدا نہیں کر لیتے۔  لیکن اس  طریقہ کا نقصان یہ ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ  جانوں کے ضیاع کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔جو کہ شاید کوئ موزوں حل نہیں ھو گا۔ تیسرے طریقے کے مطابق اگر  اس وائرس کو لوگوں میں پھیلنے  دیا جائے تو جو لوگ اس سے متائثر ھونگے اگر وہ زندہ بچ جاتے ہیں تو وہ اس وائرس کے خلاف خود بخود قوت مدافعت پیدا کر لیں گے اور اس طرح یہ وائرس فطری طریقے سے ختم  ھو جائے گا یا لوگوں کی صحت پر زیادہ اثر انداز نہیں ھو سکے گا۔ کیونکہ اسکے  پھیل جانے اور اسکے نتیجے میں  لوگوں کی اکثریت کا اسکے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لینے کی وجہ سے یہ اپنا نیا شکار ڈھونڈنے ناکام ھوجائے گا۔
ماہرین کے مطابق اس وائرس کا  بے قابو ھو کر دنیا میں پھیل جانا ایک بھیانک منظر نامہ پیش۔کر سکتا ھے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی تقریباً 60 فیصد آبادی ایک سال کے اندر اندر اس سے متائثر ھو سکتی ھے۔ یہ اعدادوشمار وبائ امراض کے ماہرین کی طرف سے دیے گئے ہیں جنکے مطابق  اعداد وشمارکے اس نقطہ  پر پہنچ کر لوگوں کی اکثریت کی یا اجتماعی قوت مدافعت  یعنی ھرڈ ایمیونٹی کے نظریہ کو اپنا کام شروع کر دینا چاہئے۔
برطانیہ کے سائنس ایڈوائزر پیٹرک ویلنس نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ھے کہ برطانیہ میں ھرڈ ایمیونٹی یعنی لوگوں کی اکثریت میں فطری طور پر اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت کو پنپنے دیا جائے تو ہی اس وائرس کی پھیلاؤ کو ختم کیا جا سکتا ھے۔ 
ھالینڈ کے پرائم منسٹر نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ھوئے کہا ہے  کہ کرونا وائرس کی پھیلاؤ کو کم سے کم کر کے ایک کنٹرول طریقے سے وائرس کے خلاف گروپ ایمیونٹی کو قابل عمل بنایا جائے تا کہ اس وائرس کو مستقبل میں بے ضرر بنایا جا سکے۔
موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ھرڈ ایمیونٹی شاید ایک بہتر اقدام ثابت  نہ ہو کیونکہ اسکی وجہ سے لوگوں کی اکثریت کے بیمار ھونے کا خطرہ ھے اور برطانیہ کے  نیشنل ہیلتھ سروسز پر ایک دم ناقابل برداشت بوجھ پڑ سکتا ھے۔ ان حالات کے پیش نظر برطانوی حکومت نے وائرس پر قابو پانے اور پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تاخیری حربے کو اپناتے ہوئے تا حکم ثانی سکول بند کرنے، عوام کو گھر سے کام کرنے کی تاکید کی ھے اور بغیر وجہ کے باھرنکلنے اور اجتماعات  کی حوصلہ شکنی کا فیصلہ کیا ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے تاخیری حربہ سے فایدہ یہ ھو گا کہ نیشنل ہیلتھ سروسز پر شاید اتنا بوجھ نہ پڑے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو  بچانا ممکن ھو سکے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ کورونا وائرس کی وباکے پھیلاؤ پر قابو پا لینے   کے بعد بھی شاید اس وائرس کے خاتمہ کے لیے  ہمیں  ھرڈ ایمیونٹی  کا سہارا لینا پڑے۔ 
 بہت سے لوگ شاید ھرڈ ایمینوٹی کے نام سے واقف نہ ھوں۔ ھرڈ ایمیونٹی ایسا عمل ہے کہ جس میں لوگوں کی اکثریت کسی جراثیم کے خلاف فطری طور پر قوت مدافعت پیدا کر لیتی ھے اور وہ اس جراثیم کے خطرے سے محفوظ ھونے کے ساتھ ساتھ اسکے عدم پھیلاؤ کا باعث بنتے ھوئے اسکا تدارک میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔  جیسے اگر کسی کو  ایک بار بچپن میں  چکن پاکس  ھو جائے تو وہ اپنی بقیہ زندگی میں اس سے محفوظ ھو جانے کے ساتھ ساتھ  اسکے پھیلاو کا باعث نہیں بنتا۔ یعنی وہ اس جراثیم کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لیتا ھے۔ 








Wednesday 4 March 2020

ھذا من فضل ربی





 ھذا من فضل ربی



نماز میں دوسرا سلام پھیرتے ہی اپنے بائیں جانب کاشی کی نظر  ایک شخص پر پڑی تو  اسے ایسا محسوس ھوا جیسے شاید وہ اسے جانتا ھو۔ دعا سے فراغت کے بعد کاشی  کی اس شخص سے علیک سلیک ھونے پر معلوم ھوا کہ رشید اور کاشی دونوں  سکول میں ایک ہی کلاس میں پڑھا کرتے تھے۔ رشید کا خاندان اپنے کام کی وجہ سے لاھور منتقل ھو چکا تھا اور کافی عرصہ کے بعد اپنے ایک نجی کام کی غرض سےاپنے آبائی شہر میں اسکا آنا ھوا تھا۔ رشید کو اپنے آبائ شہر میں واضح تبدیلی نظر آرہی تھی۔ یہ چھوٹا سا شہر پھیل کر اب کافی بڑا اور گنجان آباد ھو چکا تھا، ہر طرف نئ دکانیں اور شاپنگ پلازے کھل چکے تھے  اور لوگوں کے طرز زندگی میں بھی نمایاں تبدیلی آ چکی تھی۔  کاشی کے پوچھنے پر رشید نے اسے بتایا کہ اسکے والد کے نام 10 مرلے زمین کا ایک پلاٹ تھا جسے وہ بیچ کر اپنی بہن کی شادی کر کے اپنی زمہ داری سے سبکدوش ھونا چاھتا ھے۔ لیکن یہاں پہنچ کر اسے معلوم ھوا کہ اس زمین کے کچھ حصے پر کسی نے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ھے اور قبضہ گروپ کا تقاضا ھے کہ پانچ لاکھ رقم کے عوض وہ قبضہ چھوڑنے کو تیار ہیں۔  
یہ سن کر کاشی کی آنکھوں میں چمک سی آ گئ اور دل ہی دل میں سوچنے  لگا  کہ رزق میں اضافے کے تعویذ  کی برکت نے تو کمال ہی کر دیا ، آج تو رزق خود چل کر اسکے پاس آیا ھے۔ کاشی ایک بینک میں کام کرتا تھا تنخواہ بھی کافی معقول تھی جس سے اسکےگھر کا نظام نہایت احسن طریقے سے چل رہا تھا۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ وہ رضاکارانہ طور پر لوگوں کے ان مسائل کہ جن سے اسکے رزق میں مزید اضافہ کی توقع ممکن ھوتی تھی، کی گتھیاں سلجھانے میں بھی انکی کافی معاونت کرتا تھا۔ کاشی نے رشید کو ایک مفید مشورہ دیتے ھوئے کہا  "  قبضہ کو چھڑانے کے لیے بار بار عدالت کے چکر لگانے اور پیسہ ضائع کرنے کی بجائے قبضہ گروپ سے رقم طے کر کے ان سے اپنی جان چھڑوا لو تو زیادہ بہتر ھو گا وگرنہ تمہارا کون  بار بار لاھور سے یہاں آ کر تاریخیں بھگتے گا"۔ رشید نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اسے کہا " میں اس زمین کا اصل مالک ھوں اور انکا یہ قبضہ ناجائز ھےجسکے وہ پانچ لاکھ مانگ رہے ہیں "۔ لیکن کاشی نے اسے سمجھایا کہ بھائ جان آج کل یہاں ایسا ہی چل رہا ھے، لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں مقدمے میں الجھا کر اصل مالک سے جتنی ممکن ھو سکے  رقم بٹور لی جاتی ھے۔
 کاشی نے رشید کو اپنے گھر چائے پر مدعو کیا، رشید کوئ بہانا بنا کر اسے ٹالنا چاہتا تھا مگر  کاشی کے اصرار پر  رشید اسکے ساتھ اسکے گھر چل پڑا ۔  گھر میں داخل ھونے سے پہلے رشید کی نظر گیٹ پر لگی ھوئ سنہرے رنگ کی ایک تختی پر پڑی جس پر سیاہ رنگ میں  ''ھذا من فضل ربی''  لکھا ھوا تھا۔  رشید کاشی کا دو منزلہ گھر جس پر سفید سنگ مر مر لگا ھوا تھا اور ڈرائنگ روم جہاں ہر چیز قرینے سے رکھی گئ تھی کو  دیکھ کر کافی متائثر ھوا۔  دونوں خوش گپیوں میں مصروف ھو گئے اور اپنے زمانہ طالب علمی کو یاد کرنے لگے ۔ چائے پینے کے بعد رشید نے  کاشی سے رخصت چاہی، الوداع کرتے ھوئے کاشی نے اس سے کہا " تم اچھی طرح سوچ لو اور  میں قبضہ گروپ کی ٹوہ لیتا ھوں کہ وہ کیا چاہتے ہیں"۔ 
دوسرے دن مسجد کے باھر کاشی کی ملاقات دوبارہ رشید سے ھوئ جس پر کاشی رشید کو خوشخبری سنائ  کہ آج ہی اسکی بات قبضہ گروپ سے ھوئ ھے اور وہ 4لاکھ کی رقم لینے پر شاید راضی ھو جائیں۔ ساتھ ہی رشید کو یہ بھی بتایا کہ زمینی تنازعات کے مقدمات پر 4 لاکھ سے زیادہ کی رقم خرچ ھو سکتی ہے اور وقت علیحدہ سے برباد ھو گا۔  رشید کچھ سوچ میں پڑ جاتا ھے اور پھر رقم دینے کی حامی بھر لیتا ھے۔ 
اگلے دن کاشی،  رشید اور قبضہ گروپ کے سرغنہ قیوم  کو اپنے گھر چائے پر مدعو کیا جہاں کچھ دیر کی ٹال مٹول کے بعد  معاملات طے پا جانے پر کاشی اپنے ہم جماعت دوست کو اسکی زمین کا قبضہ دلانے میں کامیاب ھو گیا۔ دوسرے دن شام کو کاشی نے اپنےگھر آ کر اپنے کمرے کی  الماری کھولی  جہاں ایک کونے میں چسپاں رزق میں فراوانی کے تعویذ کے پاس پہلے سے ہی کچھ رقم پڑی تھی ، کاشی نے اپنی جیب میں موجود رقم نکال کر گنی اور پورے پچاس ھزار روپے پہلے سے  موجود پیسوں کے ساتھ رکھتے ہوئے اپنی بیوی سے  خوشی خوشی کہا، " ماشاءاللہ رزق میں اضافہ کرنے والا وظیفہ اور تعویذ انتہائ کار گر ثابت ھو رہے ہیں"۔ جس پر اسکی بیوی کافی خوش ھوئ اور اسے بتایا  کہ آج بھائ قیوم کا بیٹا کھجوریں  اور زم زم کا پانی دے گیا تھا کہہ رہا تھا کہ یہ ابو نے بھجوائ ہیں وہ ایک ہفتہ پہلے حج سے واپس لوٹے ہیں۔