Friday 14 July 2017

نیا موڑ


                  نیا موڑ
 تحریک   آزادی  کشمیر  جو کہ گزشتہ 7 عشروں سے جاری ہے ابھی تک نا مکمل رہی ہے۔ ارضِ کشمیر کا باشندہ ہونے کے ناطے سے میں ہمیشہ یہ سوچنے پر مجبور  رہا ہوں  کہ آخر ہماری اس بے کسی کا زمہ وار کون ہے؟   تحریک کے حوالے  سے  ہم نے  ماضی میں کیا کھویا اور کیا پایا ؟ ہماری نظر اگر مستقبل پر ہے تو پھر ہماری سمت کیا ہونی چاہیے اور اسے کون مقرر کرے گا؟   ایسے سوالات کا اظہار کوئی کرے یا نہ کرے مگریہ  ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان کی بازگشت تمام باشندگانِ ریاست کے تحتِ شعور میں نوحہ کناں ہے۔
                                                                                       
               1948 میں جب مہاراجہ کے خلاف پوری قوم بر سرِ پیکار تھی تو قبائیلیوں کو بھی اس جہاد میں مدعو کیا گیاتاکہ وہ بھی شرف شہادت سے فیض یاب  ہو سکیں ۔  ان کی اس تحریک  میں دو چیزیں  بڑی ہی غیر مبہم اور یقینی تھیں ۔یعنی  اگر تو شہادت کا رتبہ مل جاتا ہے تو آخرت سنور جائے گی  اور اگر غازی ٹھہرے  تو  مالِ غنیمت   سے دنیا سنور  جائے گی۔
ہمارےپرکھوں نے پھر یہ بھی دیکھا کہ  منہ بولے مجاہدین منوں کے حساب سےٹرکوں میں  اپنی دنیا سنوارنے میں سرخرو ہوئے ۔ لیکن ۔۔۔۔۔صد افسوس اس تمام جدو جہد میں کشمیر فتح یاب نہ ہو سکا۔ اسکے اسباب چاہے کچھ بھی ہوں، اسکا  فیصلہ میں قارئین  پر چھوڑتا ہوں جو تاریخِ کشمیر  اور اس سے متصل جہاد سے بخوبی واقف ہیں۔
جنت ارضی کو فتح سے ہمکنار کرنے کے لیے کئی لشکرِ جرار بھیجے گئے۔ بلکہ آخری معرکہ ء کارگل میں تو شنید تھی کہ شاید کوئی غیبی طاقت بھی مجاہدین کی مدد میں کار فرما ہے لیکن اسکا نتیجہ   بھی دوسرے معرکوں سے مختلف نہ تھا۔ ہمیں آج تک یہ سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہم آزادی کشمیر  کا باب کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم کریں۔ پچھلے 70 سال سے ہم اقوامِ متحدہ کو یہ تک نہیں  باور کرا  سکے کہ ریاست جموں کشمیر کے باسی بھی ایک قوم ہیں جن کی اپنی طرزِ بودو باش ، معاشرت اور ثقافت ہے جو کہ ہندوستان اور پاکستان سے زیادہ قدیم ہے۔ اس قوم کایہ پیدائشی  حق ہے کہ یہ اپنی ثقافت کو قائم رکھ سکےاور مزید ترقی دے سکے، آزادی کا سانس لے سکے۔ لیکن  آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم یا تو پاکستانی بن جائیں یا پھر ہندوستانی،  ہم اپنا کوئی تشخص رکھنے کے مجاز نہیں ہیں۔کیا کشمیری  قوم کا یہی مستقبل ہے؟ مسئلہ کشمیر صرف دو ملکوں  کا تنازعہ بن چکا ہے، لیکن کشمیری کیا چاہتے ہیں، یہ کوئی جاننا نہیں چاھتا۔  ہمارے خود ساختہ وکیل صاحب    بھی ہماری قوم کو  ٹرک کی بتی کے پیچھے  لگا  دیا ہے،  روائتی مقدمہ بازی میں الجھا کر  مقدمہ کو طول دے رہے ہیں تا کہ ان کا دال دلیہ بھی چلتا رہے۔۔۔  تصویر کا دوسرا رخ اگر دیکھا جائے تو ، انڈیا نے ہمیشہ سے آزادی کی تحریک کو دہشتگردی کا نام دے کر اقوام عالم کو یہ باور کرانے میں  کامیاب  ہو ا  کہ دہشتگرد عناصر سرحد کے اس پار سے کشمیر میں داخل ہو کر خطہ کے امن امان کو تحس نحس کر رہے ہیں۔
 مسئلہ کشمیر  کی ضمن میں ہم آج یہ سوچنے پر مجبور جو چکے ہیں کہ اس سارے تناظر میں کشمیری کہاں پر کھڑے ہیں،اور اقوام عالم اس آزادی کی تحریک کوکس  نظر سے دیکھتے ہیں؟  آزادی کا بیس کیمپ  تحریک آزادی کشمیر میں کس قدر کارگر ثابت ہو رہا ہے، یہ تو ہم بخوبی جانتے ہیں۔حقیقت میں تو  اس بیس کیمپ کو خود ہی اقوامِ عالم کے سامنے اپنا مدعا پیش کرنا تھا اور یہ بتانا مقصود تھا کہ  کنٹرول  لائن کے دوسری جانب  ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کو  آزاد کشمیر سے متصل کر کے   ایک جمہوری نظامِ حکومت کی بنیاد رکھی جائے۔لیکن ایسا نہ ہو سکااور نہ ہی مسئلہ کشمیر کی روح کو اس  طرح اجاگر کیا گیا ۔
باد صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی
حرفے زما بمجلسِ اقوام باز کوئے
دہقان و کشت و جوئے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
حکیم الامت جناب علامہ محمد اقبال  کے فارسی میں  یہ اشعار کشمیر کی  گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت ہونے کی غمازی کر رہے ہیں۔لیکن بد قسمتی سے یہی رسم آج بھی کسی نہ کسی شکل میں  قائم  رکھی گئی ہے۔ہمارے آبی وسائل، معدنیات، زرِ مبادلہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے، غرضیکہ ہر دور میں  ہمارے  نام نہاد  لیڈر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آئے دن کشمیر کا سودا کرتے  رہتے ہیں، چاہے وہ اس پار ہو یا پھر اس پار۔آج کی نوجوان نسل یہ سوچنے پر مجبور ہو رہی ہے کہ  آخر کب تک  کشمیری ان  ہاتھوں میں کھیلتے رہیں گے۔
   کشمیر کی تحریک آزادی میں اب  ایک نیا موڑ  آرہا ہے، کشمیر کی بیٹیاں  بھی اب اپنے بھائیوں  کی طرح  انڈین فوج کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔  یہ نئی نسل   انڈین فوج کی ان  زیادتیوں  اور درندہ صفت کا روائیوں  کی کہانیاں سن سن کر  جوان ہوئی ہے جن سے کشمیر کا ہر گھر متاءثر ہوا ہے۔نئی نسل  اب غاصب  فوج کو پیغام دے رہی ہیں کہ کشمیریوں کو موت کا کوئی خوف نہیں،   نہ ہی غاصبانہ قبضہ کو مانتے ہیں، آزادی کے متوالے ہیں اور محکومی سے متنفر ہو چکے ہیں۔ دنیا  اب اس تحریکِ آزادی کے نئے موڑ کو خالصتا"  کشمیری تحریک کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ خدا کرے ہمارے محسن صاحب اس تحریک کو ایک خالص کشمیری تحریک ہی رہنے دیں، کوئی ایسا غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں جس سے انڈیا ایک بار پھر یہ الزام لگائےکہ سرحد پار سے دہشتگرد عناصر اس معاملے کو ہوا دے رہے ہیں۔

کوٹلی شہر کے نام



کوٹلی کے نام
اے شہر بتاں مجھے یہ بتا
تجھے کیا ہوا ،یہ کیوں ہوا
کیا تری دلکشی کو نظر لگی ؟
یا ہے آنکھ میں کوئی تیرگی
تیر احسنِ جاوداں کیا ہوا؟
تیرے جاں نثار کہاں گئے؟
وہ تجھے جو کہتے تھے فردوسِ بریں
تیرے مدح سرا کیا ہوئے؟
اے شہرِ بتاں مجھے یہ بتا
تیرے جاں نثاری کی دعویدار
تیری شان پوری نہ کر سکے
وہ جو آئے تھے اور جو آئیں گے
تیری گود میں پلے بڑھے
کیا  یہ ان پہ تیرا قرض نہیں
تیرا گندلہ چہرہ دیکھ کر
تجھے یوں اٹا ہوا دیکھ کر
پھر غسلِ تاباں دیں تجھے
تیرا حسن پھر سے جلا کریں
مگر کیا کریں تیرے جاں نثار
ہیں اپنی حوس میں جڑے ہوئے
کیا کہیں کہ  کاتبِ وقت نے
لکھ دی تیرے نصیب میں
تیرے مرغذاروں کا اجڑا پن
تیرے جاں نثاروں کی بے حِسی
اے شہرِ بتاں مجھے یہ بتا
تجھے  کس کی یہ نظر لگی
توقیر لون