Sunday 15 November 2015

مودی جی کی چائے پانی




مودی جی کی چائے پانی


12 نومبر کو  انڈیا کا وزیرِ اعظم نریندرا مودی اپنے برطانیہ کے دورہ کے سلسلے میں برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون کو ملنے  10 ڈاؤننگ سٹریٹ لندن میں آ رہا تھا لیکن  دوسری جانب برطانیہ میں بسنے والے برٹش کشمیری اور دیگر کمیونٹیز  جن میں سکھ،  ہندو اور نیپالی کی کثیر تعداد اس دن ڈاؤننگ سٹریٹ کے باہر سراپا احتجاج تھے ۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ نریندرا مودی کے ہاتھ معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، وہ  گجرات میں  اور کشمیر میں مسلمانوں کے قتل کا زمہ دار ہے۔ مودی حکومت  انڈیا میں مذہبی تعصب کو ہوا دے رہی ہے اور جس کی بنیا د پر عیسائی، سکھ اور دلت اقلیتوں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔                 اس احتجاج میں  برطانیہ کے نامور سیاسی شخصیت  جارج   گیلوے  اور اہم کشمیری       نژاد  شخصیات  جن میں لارڈ نزیر احمد، لارڈ قربان حسین،   بیرسٹر سلطان محمود اور دیگر کئی سیاسی لوگ شامل تھے۔   نریندرا مودی جب ڈاوننگ سٹریٹ پہنچا تو اسے چوروں کی طرح عقبی دروازے سے لے جایا گیا تا کہ  وہ لوگوں کے کیے گئے احتجاج سے آنکھ بچا کر اپنی جائے واردات پر پہنچ پائے۔   مودی اور کیمرون نے مہاتما گاندھی کے مجسمے  پر پھول بھی  نچھاور کیے۔ کیمرون صاحب کو شاید یہ بات معلوم نہیں ہے کہ مودی جس انتہا پسند ہندو تنظیم کی پشت پناہی سے آگے آیا ہے  اسی پارٹی کے لوگوں نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا اور آج یہ مودی  صاحب مہاتما کے قدموں میں پھول نچھاور کر کے اس کا خون  اپنے ہاتھوں سے دھونے  کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
جلسے میں ایک برطانوی شہری جو کوئی سرمایا کارانہ سی شخصیت  لگ رہا تھا میرے ایک ساتھی سے پوچھا کہ  یہ کس ملک کا جھنڈا اس نے اٹھایا ہوا ہے تو میرے ساتھی نے جواب دیا کہ کشمیر کا، پھر اس نے تذبذب ہو کر کہا کے آپ نے ہماری سڑکیں کیوں بلاک کی ہوئی ہیںِ میں نے ایک ضروری میٹنگ کے لیے اندر جانا ہے اور لیٹ ہو گیا ہوں۔شاید اپنے سرمایہ دارانہ  سوچ کو برؤے کار لا کر یہ شخص بھول چکا تھا کہ یہ سڑکیں جتنی اس کی ہیں اتنی ہی ہماری  بھی ہیں۔ اور جس میٹنگ میں وہ جارہا تھا وہاں کے تمام انتظامات،  چائے پانی، دال روٹی سب کچھ دراصل  ٹیکس پیئر  کے دیے گئے پیسہ ہی کی بدولت وقوع پذیر ہو تا ہے ۔  اور دولت کے نشے میں یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا عوام اس احتجاج  کا حق رکھتے ہیں کہ  ایک ایسا شخص جس کو ماضی میں برطانوی حکومت ناپسندیدہ قراد دے کے اپنے ملک میں بین کر دیا تھا آج وہی شخص عوام کے اخراجات پر سرکاری مہمان بن کر کیسے اس ملک میں آسکتا ہے کہ جس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔برطانیہ اور امریکہ  جیسے ممالک اگرمسلم ممالک میں انسانی حقوق کی بحالی اور فاشسٹ حکمرانوں کے خلاف جنگ کر سکتے ہیں تو پھریہاں دوہرا معیار اپنا کر ہزاروں لوگوں کے قاتل کو گلے کیوں لگایا جا رہا ہے۔  ایک  برطانوی شہری اس بات کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف اور مودی کی آمد کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروائیں اور  وہ اسی بات کے لیے آج جمع ہوئے تھے۔  احتجاجیوں میں برطانوی کشمیریوں کی کشیر تعداد نے شرکت کی اور ان کا کہنا تھا  کہ مسئلہ کشمیر جو کہ برطانیہ کا ادھورا چھوڑا ہوا مسئلہ ہے  برطانوی حکومت  کا فرض بنتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کروانے  میں حتی الامکان مدد فراہم کرے۔
برطانوی حکومت جس  نے اپنے ماضی کی روایات کو پس ِ پشت ڈال کر اور عوام کے شدید رد عمل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مودی کو گلے  صرف اسلیے لگایا ہے تا کہ اسکے ساتھ سرمایا کاری کی 9 بلین  پاؤنڈز سے زائد ڈیل پروان چڑھ سکے۔ڈیوڈ کیمرون نے یہ ثابت کیا ہے کہ  یہ حکومت در اصل  بڑے بڑے تاجروں اور سرمایا کاروں کی حکومت    ہے اور انہی کی   خواہشات اور امنگوں کا پاس رکھا جائے گا نہ کہ عوام کا۔ لیبر پارٹی کے راہ نما جیرمی کوبین نے ڈیوڈ کیمرون  کی اس پالیسی کی مزمت کی ہے۔وہ رائیل گیلری میں مودی کی تقریر تک سننے نہیں گئے۔ادھر  برطانوی میڈیا نے مودی کی برطانیہ آمد پر  کیے گئے احتجاج   کو کوئی خاطر خواہ پزیرائی نہیں دی۔ اپنی خبروں میں احتجاج کی چھوٹی سے جھلک دکھا کر  مودی کی برطانیہ آمد سب اچھا ہے سے تعبیر کی ہے۔ کشمیری جو کہ ہزاروں کی تعداد میں ڈاؤننگ سٹریٹ اور ویمبلے میں ہونے والی دونوں تقریبات میں احتجاجی مظاہرین میں شامل تھے  ان کو  میڈیا نے کوئی خاطر خواہ کوریج شاید اسلئے  نہ دی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کشمیر تنازعہ کو اجاگر  کیا گیا تو مودی صاحب کی چائے پھیکی نہ پڑ جائے۔