Wednesday 29 July 2015

ہمیں است و ہمیں است ، ہوم سویٹ ہوم


ہمیں است و ہمیں است 
(ہوم سوِیٹ ہوم)

صبح جب میری آنکھ کھلی توباہر برآمدہ میں  مارچ کی اجلی اجلی
دھوپ کو دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ناشتہ کرنے کے بعد   میری بڑی بیٹی عائذہ   اپنی چھوٹی بہن صوفیہ  کے ساتھ صحن پڑی چارپائی پر لیٹ  کر  دھوپ سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ میں بھی سن باتھ  کے مزے لوٹنے کے لیے صحن میں کرسی پر بیٹھ گیا اور خوش رس مالٹوں سے  لطف اندوز  ہونے لگا ۔ آج جمعہ کا دن تھا اور میں تیار شیار ہو کر جمعہ کے لیے مسجد  روانہ ہو گیا۔ مسجد میں مولوی صاحب خطاب میں فرما رہے تھے کہ جمعہ کے خطبہ سے پہلے ہی سب کام چھوڑ کر مسجد میں آجا نا چاہیے کیونکہ اسکے بعد فرشتے  بھی رجسٹر بند کر کے خطبہ سننے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں، میں نے بھی تائید میں سر ہلایا  اور سوچا کہ ،  جمعہ پڑہنے کا کیا فائدہ جب رجسٹر میں  اسکا اندراج ہی نہ ہو سکے۔  پھر مولوی صاحب فرمانے لگے کہ آجکل موبائل فون کی وجہ سے جھوٹ زیادہ عام اور زور و شور سے بولا جانے لگا ہے۔ کہنے لگے کہ انکے ایک  عزیز ہیں ،    کسی  نے  ان کو  کال کی اور پوچھا کہ کیا مصروفیت ہے، تو اس عزیز نے جواب دیا کہ وہ شہر سے باہر کسی کام سے گئے ہوئے ہیں  حالانکہ وہ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا کی ہاں ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں مولوی صاحب،  موبائل نہ ہوتا تو پھر  جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت پیش آتی ویسے بھی یہ گوروں کی ایجاد ہے جو خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور مسلمانوں کو  بھی جھوٹ بولنے پر لگا دیا ہے۔



کوٹلی میں دو ، تین دن قیام کے بعد  ہم آزاد کشمیر کے سیاحتی
 مقامات کی سیر پر روانہ ہوئے، میری فیملی کے علاوہ، ہمشیرہ کی فیملی اورمیرا ماموں  زاد ، صبیح بھی ساتھ تھے۔ہماری گاڑی   بنجوسہ کے دلفریب مقام کی جانب  بڑھ رہی تھی، بنجوسہ جو کہ کوٹلی سےراولاکوٹ   کی جانب تقریبا 2 گھنٹے کی مسافت پر ہے بشرطیکہ سڑک ٹھیک ہو۔ کوٹلی شہر سے باہر نکلتے ہی ہمیں وہی 5000 ہزار سالہ  پرانے  کھنڈرات نہ صرف سڑک پر نظر آئے بلکہ ہمیں ان میں  ہچکولے کھانے کا  شرف بھی حاصل ہوا۔ یہ ہماری  آزاد کشمیر گورنمنٹ ہی کی ایک قابلِ صدتحسین کاوش ہے  کہ انھوں نے ایسی قسم کے تاریخی ورثے   کوتا قیامت  محفوظ  رکھنے کےٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ وگرنہ کس نا معقول کو قومی اثاثہ  محفوظ کرنے کا خیال سوجھ  سکتا تھا۔  راستے میں بہت خوبصورت مناظر آئے  جنہیں دیکھ کر بے اختیار منہ سے  سبحان اللہ نکل جاتا ہے، ہم اسی طرح کے ایک مقام جو کہ انڈیا موڑ کے نام سے مشہور ہے پر کچھ دیر کے لیے رک گئے۔ گاڑی سے با ہر نکلنے پر ایسا محسوس ہوا جیسے کسی اونٹ پر سفر کر تے رہے ہوں، میری پسلیاں  سجے کھبے  ہو ہو کر اب دکھ رہی تھیں۔ خیر گاڑی سے باہر نکل کر جب انڈیا موڑ کا نظارا کیا تو سب تکان دور ہو گئی ،  یہاں سے  دور برف سے لدے  ہوئے  پیر پنجال کے پہاڑ انتہائی دلفریب منظر پیش کر رہے تھے۔جس جگہ ہم کھڑے تھے یہ جگہ بھی خاصی اونچی تھی، اور نیچے لوگوں کے گھر جن پر کہ ٹین کی چھت  پڑی ہوئی بہت بھلا منظر  پیش کر  رہے تھے۔
   یہ تمام کا تمام علاقہ پہاڑی ہے اور یہاں  کے لوگ ان پہاڑیوں پر ہی آباد  ہیں اور اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں۔  یہاں پر زیادہ سدھن قبائل کے لوگ  آباد ہیں جو سادہ مزاج اور بڑے مہمان نواز ہیں۔   اس مقام سے چونکہ  پونچھ کا شہر  نظر  آتا ہے جو کہ انڈین مقبوضہ کشمیر میں ہے   اس لیے اس مناسبت سے اسے انڈیا موڑ دیا گیا ہے۔ میں نے والد صاحب کو موبائل سے  فون کرنے کی کوشش کی تا کہ اپنی خیر خیریت کی اطلاع دے سکوں ، لیکن بے سود۔   ان علاقوں میں موبائل سروس شاید سرے سے  تھی ہی نہیں ، مجھے لمحہ بھر کے لیے مولوی صاحب کے ان الفاظ   کی بازگشت سنائی دی  جو انھوں نے مسجد  میں جمعہ کے دن دوران وعظ کہے تھے ،کہ  موبائل کی آمد سے  اب لوگ جھوٹ زیادہ بولنا شروع ہو گئے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ  حکومت انسدادِ دروغ   گوئی کے لیےموبائل جیسی خرافات کو یہاں ان  سیدھےسادھے لوگوں میں متعارف کرانے کو عیب سمجھتی تھی۔

جاری

2 comments: