Sunday 26 November 2017

مولوی دھرنا اور مسجد


مولوی  دھرنا اور مسجد



ملک خداد  اسلامی جمہوریہ پاکستان  دھرنا کلچر میں سر فہرست ہے۔ یہاں کے عوام کسی بھی قسم کی زیادتی  اور نا انصافی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ پاکستانی عوام اسلامی اقدار کا عملی نمونہ ہے اگر کوئی پکا اور سچا مسلمان دیکھنا چاہے تو وہ  اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جاکر اپنا ایمان تازہ کر سکتا ہے۔ لوگوں میں جذبہ ء  حب الوطنی، محبت، اخوت و بھائی چارہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔  مجال ہے کہ  اس ملک میں کسی قسم کی چوری چکاری ، دغہ بازی ، رشوت،  یا پھر حرام زدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوا ہو، اور اگر بھولے سے ہو  بھی جائے تو بلا تحقیق اس ملک کے نہایت متقی اور پرہیز گار عوام  ملزم سے نمٹ لیتے ہیں اوریوں ملزم قرار واقعی سزا  پا لیتا ہے۔
ملک اگر قائم ہے تو صرف اور صرف ہمارے پرہیز گار مولویوں اور ایسے ہی متقی قسم کے علماء کرام کی بدولت  قائم ہے۔ یورپی اقوام خواہ مخواہ ہی  پاکستان سے جلتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک ترقی کی وہ منازل طے نہ کر سکے  جس پر آج پاکستان کھڑا ہے۔  اسلام کے اس قلعے کو اب سب سے زیادہ   خدشہ  اگر ہے تو
   ان اقوام سے ہے جو اسکو فتح کر کے ہمارا اثاثہ یعنی متقی اور پرہیز گار مولوی حضرات کو لوٹ کر اپنے ملک میں لے جانا چاہتے ہیں تاکہ انکا ملک بھی    
ترقی کی منازل آسانی سے طے کر سکے۔ ان اقوام کی سازش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں،   آئے دن پاکستان میں جو معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں
    ان کے پیچھے یورپی اقوام ، امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہے۔

پاکستان میں عبدالستار ایدھی کو بھی انہین اقوام نے پاکستان میں اپنا جاسوس بنا کر بھیجا تھا  تا کہ پاکستان میں کافر یورپ اقوام کی طرز پر رفاع عامہ کا گھناونا کھیل کھیلا جا سکے۔ اس کھیل کے شروع ہونے سے پہلے پاکستان جیسے پاک ملک میں ولد الزنا کا تصور تک موجود نہ تھا، لیکن جب سے ایدھی نے ان بچوں کو کہ جو اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے، گود لیا تب سے ولدالزنا میں اضافہ ہو گیا ہے۔ایسا صرف اور صرف یہودو نصاریٰ کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے تا کہ پاکستان کے پاکیزہ معاشرے میں حرام کا عنصر سرائیت کر جائے۔ 
 

  ان اقوام کی ایک اور   نہایت ہی گھناونی سازش جلد ہی منظرِ عام پر آنے والی ہے،  اور وہ یہ ہے کہ مساجد  جو اللہ کا گھر کہلاتی ہیں،   جس میں مسلمان پانچ وقت خدا سے ہمکلام ہوتے ہیں اور سیدھی راہ پر قائم رکھنے کی التجا ئیں کرتے رہتے ہیں،  اس جیسے پاک اور معطر گھر میں بچوں کے ساتھ بد فعلی   کے واقعات آئے دن وقوع پزیر ہو رہے ہیں۔  خبر ہے کہ کافر اقوام کی اس سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے بھی ایک بہت بڑا دھرنا دیا جائے گا جس  میں ان تمام بچوں کو جو کفار کے  آلہء کار بن کر مسجد میں اس  قسم کی قبیح حرکت میں ملوث  ہوئے ہیں ا­­ن کو سر عام پھانسی دی جائے گی  ۔

Wednesday 23 August 2017

کشمیر کمیٹی اور مسئلہ کشمیر


کشمیر کمیٹی اور مسئلہ کشمیر



محمود خان اچکزئی اپنی خیالات اور صاف گوئی کی وجہ سے  جانے جاتے ہیں۔ یہاں میں باالخصوص انکے کشمیر کے متعلق رائے کے بارے میں بات کروں گا۔کیونکہ یہ پاکستان کے ایسے جراءت مند اور دلیر سیاست دان ہیں جو کشمیر کی مکمل آزادی کی بات کرتے  ہیں اور اسی وجہ سے انھیں پاکستان کے چند تنگ نظر لوگوں سے غدار کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں۔ لیکن ایک حق گو اور بے باک شخص  کو  اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ تنگ نظر اسکے بارے میں کیا رائے زنی کرتے ہیں۔خان  صاحب کشمیر  کے بارے میں جو رائے ہے وہ کشمیریوں کی اکثریت کی رائے کی  عکاس ہے۔اگر پورے پاکستان میں کوئی سیاستدان مسئلہ کشمیر کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کشمیر کی آزادی کی بات کرتا ہے  تو ہمیں محمود خان اچکزئی کے علاوہ اور کوئی نہیں  نظر نہیں آتا۔  اسی وجہ سے محمود خان اچکزئی کشمیری عوام میں  زیادہ مقبول ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کا چیئر مین اس شخصیت کو ہونا جو مسئلہ کشمیر کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ، انکے حقوق اور رائے کا ترجمان ہو۔ اسکے لیے محمود خان اچکزئی سے زیا دہ موزوں  اور با اثر شحصیت اور کوئی نہیں ہو سکتی جو کشمیریوں کی آواز کو پاکستان  کے ایوانوں میں پہنچا سکے  ۔ پاکستان کی عوام کو بھی اب سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ  ایک آزاد و خود مختار کشمیر ہی پائیدار پاکستان  کی ضمانت ہے۔
ہماری بدقسمتی سمجھیے یا پھر حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر سے کس قدر مخلص ہے اسکا  اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جو شخص کشمیر کمیٹی کا چئیر مین تعینات کیا ہے وہ مسئلہ کشمیر سے اسقدر نابلد ہے کہ موصوف اخبار میں بیان دیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔۔جی ہاں میں مولانا فضل الرحمان صاحب ہی کی بات کر رہا ہوں۔ جنہیں پاکستان میں عرف عام میں مولانا ڈیزل کا لقب بھی دیا گیا ہے۔ ماشاءاللہ کیا لقب پایا ہے ، میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ انہیں یہ لقب کیوں دیا گیا، لیکن انکے اس بیا ن نے میری مشکل آسان کر دی۔ بحیثیت ایک  کشمیری میں مولانا سے سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ  کشمیر کے نام پر تنخواہ اور دیگر فنڈز جو وہ ڈکار رہے ہیں اسکے بدلے میں انھوں نے کشمیریوں کے لیے کیا مثبت کام سر انجام دیا ؟
پچھلے ستر عشروں سے پاکستان اور بشمول آزاد کشمیر کی عوام جس دلدل  اور جبرو استحصال کی چکی میں پستی رہی ہے اب اس نظام کو بدلنے کا وقت آگیا ہے،ہمیں اب منفی رویوں  اور استحصالی نظام کو اپنے دل میں جگہ نہیں دینی چاہئے،ہمیں اب روشن خیالی سے کا م لینا ہے اور اپنے معاشرے میں ایسی اقدار کو قائم کرنے کی کوشش کرنا  ہے جو دوسروں کے حقوق ،  انکی رائے  اور اختلافِ رائے کا  احترام کرنا  سکھائے۔ 

Monday 7 August 2017

کشمیر موٹے شیشے کی عینک سے

 کشمیر موٹے شیشے کی عینک سے

مسئلہ کشمیر اس قدر گھمبیر ہوتا جا رہا ہے کے ہمیں خود آج تک اس بات کا علم نہ ہو سکا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو وزیر اعظم فاروق حیدر صاحب کا  کہ ان کی  طرف سے کی گئی پریس کانفرنس کے ردِ عمل میں چند  پاکستانی میڈیا اور سیاسی شخصیات  نے   ہمیں یہ بتایا کہ اصل میں ہمیں کس چیز کی مانگ کرنی چاہیےاور  دراصل کشمیری جو 1931 سے   جس تحریک کے لیے  جدو جہد کر رہے ہیں وہ انتہائی غلط ہے ، اسکا تو سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔
 ہم اپنے  ان  ہم درد دوستوں کے انتہائی مشکور   ہیں ، کہ انھوں نے ہمیں ہماری سب سے بڑی خوش فہمی  کی حقیقت  سے آگاہ کر دیا۔ ہمیں تو آج تک یہ پتہ ہی نہ تھا کہ آخر ہم کیا چاہتے ہیں؟۔ پاکستان کے بڑے بڑےخود اختیاری  دانشوروں نے میڈیا میں  ظہور فرما کرجو کہ   حقِ خود ارادیت  کی  اصطلاح سے ہی نابلد ہیں   آزاد کشمیرکے وزیرِ اعظم کے خلاف گھٹیا زبان استعمال  کرنے  سے ذرہ بھر بھی گریز نہ کیا ۔ یہ دراصل ان تمام کشمیریوں کے لیے کھلا پیغام ہے   جوحکومتِ  پاکستان کو اپنا محسن مانے ہوئے ہیں، کہ تم کشمیریوں کی  کیا مجال  کہ تم اپنے  مستقبل کا فیصلہ خود بہ ہوش و حواس کر سکو،  تم لوگ  تو اسقدر حقیر ہو کہ جب چاہیں تمہیں ذلیل کر دیں۔  یہ وہی منافق  ہیں کہ جو خود تو خود اختیاری طور پر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر ، سینئر صحافی، اور سینئر لیڈراور نہ جانے کیا کیا القاب  تو لگا لیتے ہیں، لیکن کسی قوم کے حقِ خود اختیاریت یا خود ارادیت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔یہ ہم سے کہتے ہیں کہ  کشمیری قوم کو اپنے حقِ خود ارادیت کی اصطلاح کو اب حقِ خود پاکستانیت میں تبدیل  کر دینا چاہیے۔
کشمیر میں  کیے گئے تمام سروے  رپورٹ کے مطابق عوام کی معروف رائے یہی سامنے آئی  ہے کہ کشمیری ایک آزاد ملک چاہتے ہیں۔ یہی سوال جب انڈیا کے لوگوں سے پوچھا گیا تو زیادہ تر لوگوں نے کشمیر کی آزادی کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس کے بر عکس  ہمارے  کچھ پاکستانی بھائی کشمیر کی آزادی کے حق میں باالکل منفی رویہ رکھتے ہیں اور کشمیر ی انکی نظر میں ایک حقیر اور  ادنیٰ غلام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس تمام پسِ منظر کے پیشِ نظر ریاست جموں کشمیر کی عوام کو اب ایک عدد موٹے شیشے کی عینک درکار ہے جس سےوہ اپنی  بینائی کی سمت کو درست کر سکیں۔  جی ہاں ہمیں ایک ایسی ہی عینک چاہیئے جو تصویر کے اصل رخ کو ہمارے پردہ بصارت تک  اس کمال سے پہنچائے کہ ہمارا دماغ اس منظر کی حقیقتِ حال  کا بخوبی تعین کر سکے۔