Tuesday 10 November 2020

بیگم لیاقت علی اصل میں کون تھیں۔ who was Begum Liquat Ali Khan


پاکستان کی تاریخ میں شیلا آئرین  روتھ پنت کا کیا کردار تھا  

 شیلا آئرین روتھ پنت نے کب اور کیوں اسلام قبول کیا اور کس نام سے جانی گئیں

بہت کم لوگوں اس بات سے واقف ہیں کہ بیگملیاقت علی کا اصل۔نام شیلا آئرین روتھ پنت تھا اور  انھوں نے شادی کے بعد اسلام قبول کیا اور بیگم رعنا لیاقت علی کے نام سے جانی گئیں۔ بیگم لیاقت علی کے حالات زندگی کے بارے میں شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ شیلا آئرین روتھ پنت سے رعنا لیاقت علی کیسے بنیں۔ شیلا ائرین روتھ پنت ۱۹۰۵ میں الموڑہ میں  برٹش انڈین آرمی میجر جرنیل ہیکٹر پنت کے گھر ، پیدا ہوئِیں جو کہ ہندوستان کے اتر کھنڈ میں واقع ہے۔

click on link to watch video

انکے دادا ایک اعلی زات کے برہمن اور کام کے لحاظ سے وید یا جسے ہم حکیم کہتے ہیں، کے پیشے سے منسلک تھے۔ جنہوں نے ہندومت مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت قبول کر لی تھی۔ عیسائیت قبول کرنے پر انکے رشتہ داروں نے جو کہ انکے ساتھ والے گھر میں رہتے تھے اپنے گھر کو انسے الگ کرنے کے لیے  درمیان میں ایک اونچی دیوار کھڑی کر دی تھی اور بچوں کو سخت ہدایت کی کہ انکے گھر کی طرف دیکھنے کی کوشش بھی نہ کریں۔ آئرین پنت یعنی رعنا لیاقت نے ابتدائ تعلیم لکھنو کے لال باغ سکول سے حاصل کی اور پھر وہیں کے آئ ٹی کالج میں مزید تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔ مشہور مصنفہ قراۃ العین حیدر، عصمت چغتائی بھی اسی کالج  تعلیم حاصل کی تھی ۔ آئرین روتھ بیگم رعنا لیاقت کیسے بنیں اسکے پیچھے بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ بیہار میں سیلاب آنے کی وجہ سے لکھنو یونیوسٹی کے طلبا نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک پروگرام کر کے لوگوں کے لیے فنڈز جمع کریں گے۔ آئرین روتھ بھی اس کالچ میں پڑھتی تھیں اور پروگرام کے ٹکٹ بیچنے کے لیے جو پہلا دروازہ انھوں نے کھٹکھٹیا وہ لیاقت علی خان کا تھا۔ آئرین نے انہیں دو ٹکٹ خریدنے کو کہا۔ لیکن انھون نے بتایا کہ وہ اس شہر میں کسی کو نہیں جانتے، جس پر آئرین روتھ نے کہا کہ وہ کسی کو انکے ساتھ شو دیکھنے کا انتظام کریں گی، اگر کوِئی نہ ملا تو  پھر وہ  خود انکے ساتھ شو دیکھ لیں گی۔ بعد میں لیاقت علی خان اپنے ایک دوست مصطفی رضا کے ساتھ یہ شو دیکھنے گئے۔  آئرین دلی میں ایک کالچ میں لیکچرار تھیی جب انھین پتہ چلا کہ لیاقت علی خان کو لیجیسلیٹو اسمبلی کا سربراہ منتخب کیا گیا ہے۔ تو انھوں نے خط لکھ کر لیاقت علی خان کو مبارک باد بھی دی۔ جواب میں لیاقت ٰعلی خان نے لکھا کہ '' وہ لکھنو جاتے ہوئے دلی سے گزریں گے ،  تو کیا وہ انکے  ساتھ چائے پینا پسند کریں گی۔ جس پر آئرین نے دعوت قبول کر لی، اور پھر اسکے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا اور بات ۱۹۳۳ میں شادی تک جا پیہنچی۔  لیاقت علی خان ان سے دس سال بڑے تھے اور پہلے سے شادی شدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بچے کے باپ بھی تھے۔ لیاقت علی خان کی پہلی بیوی کا نام جہاں اراء تھا جو انکی کزن بھی تھیں۔ ۔16 اپریل ۱۹۳۳ کو لیاقت علی خان اور آئرین روتھ پنت کا نکاح ہوا، جہاں انھون نے اسلام قبول کیا اور انکا نام گل رعنا رکھا گیا۔ 

پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے اپنا۔  اورنگزیب روڈ والا بنگلہ رام کرشن ڈالمیہ کو فروخت کیا ۔  وہیں لیاقت علی خان نے اپنا بنگلہ پاکستان کو عطیہ کر دیا جو آج بھی انڈیا میں تعینات پاکستانی سفیر کے زیر استعمال ہے۔ لیاقت علی خان نے اپنے گھر کی ہر ایک چیز پاکستان کو عطیہ کر دی تھی ، اور صرف زاتی استعمال کی چند چیزیں ہی پاکستان اپنے ساتھ لائے تھے۔ پاکستان آ کر لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے اور بیگم رعنا خاتون اول ، لیاقت علی خان نے انکو اقلیتوں اور خواتین کی بہبود کی وزارت دی جس پر انھوں نے با احسن طریقے سے اپنے فرائض انجام دیے۔ 

 چار سال بعد جب لیاقت علی خان کو  راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران قتل کر دیا گیا تو لوگوں کا خیال تھا کہ بیگم رعنا واپس انڈیا چلی جائیں گی۔ ابتدا میں  میں بیگم رعنا نے کافی مشکلات دیکھیں، کیونکہ لیاقت علی خان انکے لیے کوئی جائیداد یا پیسہ نہیں چھوڑ کر گئے تھے،  حکومت پاکستان نے انہیں ماہانہ دو ہزار روپے وظیفہ مقرر کیا اور اسکے بعد انہیں ہالینڈ میں سفیر کے طور پر بھیج دیا گیا۔  بیگم رعنا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر بڑی اچھی گرفت رکھتی تھین۔  انکی قابلیت کی وجہ سے ہالینڈ نے انہیں اپنے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا، ہالینڈ کی ملکہ سے انکے بڑے اچھے مراسم تھے ، ملکہ نے پاکستان کے لیے انھین ایک عالیشان گھر سستے داموں خریدنے کی پیشکش کی جو آج بھی ہالینڈ میں پاکستانی سفارت خانہ کے عملے کے زیر استعمال ہے۔۔۔  ان تمام خدمات کے باوجود ایوب خان کے دور میں انہیں زیر عتاب لایا گیا ۔ ایوب خان چاہتے تھے کہ وہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں الیکشن لڑین، جس پر بیگم رعنا نے صاف انکار دیا تھا۔ 

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر بھی بیگم رعنا نے ضیاء الحق کے خلاف احتجاج  میں قیادت کی اور جنرل ضیاء کی بھر پور مخالف کی۔  بیگم رعنا لیاقت ۳۰ جون ۱۹۹۰ کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں لیکن اپنے پیچھے جدو جہد، جرات و بہادری کی داستان چھوڑ گیئں۔