Sunday 3 May 2020

ہجرت



ہجرت

آؤ کہ ہم ہی کوچ کر جائیں
یہ بستی، یہ نگری یہ کوچہ و بازار
بھرے پڑے ہیں زندہ لاشوں سے
دیکھتے سنتے تو ہیں پر  بولتے نہیں
عقل رکھتے تو ہیں پر سوچتے نہیں
انکی سوچوں پہ پہرے ایسی مخلوق کے
جو دکھتی تو ہے پر دکھائ دیتی نہیں
یہ بستی یہ نگری یہ کوچہ و بازار
ہیں مالک اسکے جو سمجھتے ہیں یہ
کہ زر اور زور پر انہیں کا ھے حق
وہ چاہیں تو کچھ بھی کر گزریں یہاں
مسجدوں کے مکین منبروں کے امین
 خدا کی وراثت کے جو دعویٰ دار ہیں
زر اور زور کے جو آلہء کار ہیں
کوئ انسے کہے ، ہم بھی ہیں یہاں
جن پہ زر، زور اور مذھب کا رعب جماتے ہو تم
 نہ ھوں گے ہم تو تمہاری یہ شاہ زوریاں
پتھروں ، بنجروں، اور پہاڑوں سے جب
ٹکرا کہ واپس آئیں گی
صرف  تمھیں پائیں گی
 شاید  پھر تمھیں اسبات کا احساس ھو
 جا چکے ہیں جو  واپس وہ آتے نہیں
دل ناتواں کو اب یہ سہلاتے نہیں
اک بازگشت تمھارے کانوں میں جو
آ آ کہ تم کو یہ بتلائے گی
  کہ آ ؤ
ہم بھی کوچ کر جائیں 
آؤ کہ ہم بھی
 کوچ کر جائیں۔
        توقیر لون