Monday 18 March 2019

چین کا سورج کو سمیٹ کر زمین پر لانے کا منصوبہ

چائنہ کا خلا سے شمسی توانائی کو زمین پر لانے کا منصوبہ


دنیا میں ایجادات کا سلسلہ تخلیق آدم سے لے کر آج تک اور تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ آ ج  ہم جس ترقی یافتہ دور میں رہ رہے ہیں اسمیں جتنی بھی ایجادات ممکن ھوئ ہیں ان میں  الیکٹریسٹی کا ایک اہم کردار رہا ھے اور آئندہ بھی رہے گا۔ بجلی یعنی الیکٹریسٹی کی ایجاد کو سائنسی میدان میں ایک معجزہ کہا جائے تو یہ بے جا نہ ھو گا۔ اس معجزے سے سائنسی میدان میں ان گنت معجزات نے جنم لیا جو انسانی عقل کو ماوف اور آنکھوں کو خیرا کر دینے والے ہیں۔
بجلی کے حصول کے لیے مختلف طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں جنمیں ہائڈرل پاور، نیو کلیئر پاور، ایندھن،  ونڈ   ملز،  اور شمسی توانائی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ماہرین اب بجلی پیدا کرنے کےان  زرائع کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں جو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو کم کرے بلکہ اسکی پیداواری لاگت بھی کم سے کم ھو۔ اس لحاظ سے شمسی  توانائی ایک  بہترین ذریعہ ھو سکتی ھے جو دنیا میں کافی مقبول ھو چکی ھے۔
اگر ہم شمسی توانائی سے بجلی حاصل کر کے اس سے اپنے
 روزمرہ کے کام سر انجام دے سکتے ہیں تو اس شمسی توانائی کو بجائے زمین سے حاصل کرنے کے ہم سورج کے مزید قریب یعنی  خلا کا رخ بھی کر سکتے ہیں تا کہ ہمیں دن رات اور  ہر قسم کے موسمی تغیرات میں بھی اس شمسی توانائی کا حصول ممکن ھو سکے اور ہم اس سے استفادہ کرتے رہیں۔

شمسی توانائی کو خلاء میں حاصل کرنے اور اس تمام منصوبے کوپایاء تکمیل تک پہنچانے کے لیے چین نے سولر پاور سٹیشن کو خلاء میں بھیجنےکے مشن پر کام کرنا شروع کر دیا ھے۔   چائنہ کے خلائی ماہرین کی ٹیم جو اس منصوبے پر کام کر رہی ھے کا کہنا ھے کہ وہ 2021 سے 2025  کے درمیان  خلاء میں سولر پاور سٹیشن بھجنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ یہ سولر سٹیشن زمین کے مدار سے 36000 کلو میٹر یعنی 22369 میل کی دوری پر ھو گا جو دن رات اور غیر مناسب موسمی حالات میں بھی ہر وقت سورج سے روشنی حاصل کر سکے گااور یوں چین دنیا کا واحد ملک کہلائے گا جو خلاء سے شمسی توانائی حاصل کر کے اسے زمین پر اپنے تصرف میں لا سکے گا۔اگر یہ پروجیکٹ کامیاب ھو جاتا ھے تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا پروجیکٹ ھو گا جو خلاء سے حاصل ھونے والی  لا  متناہی
شمسی توانائی کو ری نیو ایبل انرجی میں ڈھال کر اسے زمین پر استعمال کےقابل بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
لیکن سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ خلا سے شمسی توانائی کو کیسے زمین پر لا کر کارآمد بنایا جا سکتا ھے۔  اس سوال کے جواب میں چینی ماہرین کا کہنا ھے کہ وہ خلاء سے شمسی توانائی کو لیزر ٹیکنالوجی یا مائکرو ویو ٹیکنالوجی کے زریعے زمین پر بھیج کر اسے کارآمد اور قابل تصرف بناسکتے ہیں۔ خلاء سے شمسی توانائی حاصل کرنے سے متعلق اگر مزید معلومات حاصل کی جائیں تو ہمیں معلوم ھوگا کہ چین شاید وہ پہلا ملک نہیں ہے جس نے خلاء سے شمسی توانائی کو زمین پر استعمال کرنے کا تصور پیش کیا ھو۔ 1950 میں امریکی سانسدانوں نے بھی شمسی توانائی کو خلاء سے کنٹرول کر کے زمین پر استعمال کرنے کا تصور پیش کیا تھا لیکن اس پر بہت کم کام کیا جا سکا۔  ناسا کے ایک سابق ریسرچر  جان مینکنز نے  ھوائ جزیرہ میں مایوی کے مقام پر موجود ایک پہاڑ کی چوٹی سے  شمسی توانائی کو کنٹرول کر کے ایک بیم کے زریعے 92 کلو میٹر دور ایک مقام پر پہنچانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا، وائرڈ نامی ایک جریدے نے اس تجربے سے متعلق لکھا کہ جان مینکنز تقریباً 20 واٹ تک کی انرجی مطلوبہ مقام تک پہنچانے میں کامیاب ھو سکا جس سے صرف ایک بلب ہی روشن کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ جریدہ اس بات کا اعتراف بھی کرتا ھے کہ اگر  اس تجربہ میں ایک خطیر رقم صرف کی جائے اور سولر پینلز کی تعداد میں۔ اضافہ کرنے  سے خاطرخواہ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
اگر چینی سائنسدان اور ریسرچرز خلاء سے شمسی توانائی کو لیزر یا مائیکرو ویو کےزریعے زمین پر لانے میں کامیاب ھو جاتے ہیں تو اس میں کو شک نہیں کہ وہ قرہء ارض پر موجود بجلی پیدا کرنے کے زرائع کو اس ری نیوایبل انرجی سے تبدیل کر سکتے ہیں اور لا محالہ یہ انکی بہت بڑی کامیابی تصور کی جائے گی۔  لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ بات اتنی آسان بھی نہیں ، اس تجربے میں بہت زیادہ پیچیدگیاں ہیں جنکے لیے ایک خطیر رقم درکار ہے اور اسکے ساتھ ساتھ زمین پر ایک ایسی بہت بڑی فیسیلیٹی بھی درکار ھو گی جو خلاء میں حاصل کی گئی توانائ کو وصول کرنے اور اسے رینیوایبل انرجی میں تبدیل کر نے کا کام انجام دے سکے۔
 




Wednesday 13 March 2019

گڈ بائے مسٹر چپس

گڈ بائے مسٹر چپس


اس سے پہلے کہ مسٹر چپس کے ناول کی جگہ سیرت رسول صلعم سے متعلق انگریزی مضامین انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں شامل کیے جانے پر بات کی جائے، ایک آئیڈیل  تعلیمی نظام کو سمجھنا نہایت ضروری ھے۔  
تعلیمی نظام کا ابتدائ مقصد انسان کو شعور دینا اور اسے اس قابل بنانا ھے کہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت سے  ایک کامیاب زندگی گزار سکے۔ دنیا کی ترقی یافتہ عوام کو  یا  برطانوی تعلیمی نظام جس میں ھم خود رہ رہے ہی  اسی کو دیکھ لیں۔یہ ایک بچے کی زہنی نشونما کرنے کے ساتھ ساتھ اسے  میدان  عمل کے لیے بھی تیار کرتا ھے۔  یہ تعلیمی نظام اس بات کو یقینی بنانے کی حتی الوسع کوشش کرتا ھے معاشرے میں رہنے کے اعلیٰ اقدار بچے کو سکھائے جائیں تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ھو کر ایک مثالی شہری کے طور ا پنا کردار ادا کر سکے۔ ایک واقعہ سے شاید یہ بات زیادہ واضح ھو جائے، میری بیٹی جسے پاکستان میں۔ ایک سال سکول میں پڑ ھنے کا اتفاق ھوا،نے ایکدن مجھے کہا کہ سکول میں ایک بچی اسے تنگ کرتی ھے اور تھپڑ بھی مارا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تم بھی اسے تھپڑ مار دیتی، تو اسنے کہا کہ 
Papa، two wrongs don't make a  right ۔ 
اب اگر دیکھا جائے تو بچی نے یہ بات برطانیہ کے جس نظام تعلیم سے سیکھی تھی یہ اس کا کمال تھاکہ وہ اس پر عمل  پیرا بھی تھی۔   
 ہم اگر بات کریں  پاکستان بشمول آزاد کشمیر کے نظام تعلیم کی تو وہ یورپی نظام تعلیم سے کوسوں دور ہے۔ ہمارے ہاں کے نظام تعلیم میں بچے پر کتابیں لاد دی جاتی ہیں اسے رٹے لگوا لگوا کر امتحان پاس کروائے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسی تعلیم کا عملی زندگی سے کوئ لینا دینا نہیں ھوتا۔ 
بات چلی تھی مسٹر چپس کی بجائے سیرت رسول صلعم کو انٹرمیڈیٹ کے انگریزی مضامین میں شامل کرنے کی۔ ہمارا سب سےبڑا المیہ ہے کہ ہم نے سیرت مصطفٰی صلعم کو صرف رٹا مار کر یاد کیا ھے تاکہ اگلی جماعت میں داخل ہو سکیں لیکن افسوس کہ ہمارا عملی زندگی میں اس سے
کچھ واسطہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جو لوگ اردو زبان میں سیرت رسول صلعم کو پڑھ کر بھی سمجھ نہ سکیں اور عملی طور پر اس سے میلوں دور ھوں کیا وہ لوگ انگلش میں سیرت مصطفٰی صلعم کو پڑھ کر اسے سمجھ کر اپنی زندگیاں اسکے مطابق ڈھال سکیں گے؟. یا پھر رٹا مار کر صرف امتحان پاس کرنے پر ہی زور ھو گا؟.
 مسٹر چپس اگر  نصاب میں شامل ھے تو اسکی صرف ایک ہی وجہ ہے، وہ یہ کہ انگریزی زبان کا مروجہ نظام تعلیم  میں شامل ھونا ہے۔ ھمارے نظام تعلیم میں انگریزی زبان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ کوئ بھی زبان سیکھنے اور اس ہر دسترس حاصل کرنے کے لیے اسکے صحیح صرف و نحو، شاعری، اور ادبی مشاہیر سے آشنائی لازمی ھوتی ھے۔ کسی زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے اس زبان کے محاورات سے  شناسائی اور ان پر عبور ھونا چاہئے اور یہ اسوقت ہی ممکن ہے جب آپ اسکے ادب کو بھی باقاعدگی سے پڑہیں گے۔ بالکل ویسے ہی  جیسے ہم اردو سیکھتے ہیں تو ہم اردو میں لکھے گئے شہرہ آفاق ناول اور ادبی پاروں کو بھی پڑھتے ہیں تا کہ زبان دانی پر عبور ھو سکے۔۔
اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسٹر چپس کی بجائے سیرت رسول صلعم کو نصاب میں شامل کیا جائے تا کہ لوگ اس مستفید ھوں  تو بصد احترام کیا جائے لیکن ایک غیر زبان میں ہی کیوں ؟ کیوں نہ سیرت رسول صلعم کے مضامین کو انگلش کی بجائے عربی مضامین کے ساتھ شامل کیا جائے۔ کیو نکہ عربی زبان ہی اسلام کا اصل منبع ھے اور ایک مسلمان کو عربی پر عبور ھونا چاہئے تا کہ وہ حدیث، قرآن اور سیرت رسول صلعم کا صحیح طور پر مطالعہ کر سکے اور اسکی عملی زندگی میں بھی قرآن و سنت کی
جھلک دیکھنے کو ملے۔ ۔
قارئین میری اس تحریر سے اختلاف رائے  کا پورا حق رکھتے ہیں۔ شکریہ 

Tuesday 12 March 2019

میجر جنرل آصف غفور کی نصیحت

 جنرل آصف غفور کی نصیحت
Pic.courtesy news18


 کچھ مہینے پہلے ڈی جی ائ ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا پاکستانی میڈیا برادری کو مخاطب کرتے ھوئے یہ بیان سامنے آیا کہ  " آپ ملک سے متعلق چھ ماہ کے لیے مثبت خبریں شئیرکریں " انکا یہ بات کہنے کا مقصد اسلیے تھا کہ اگر چھ ماہ تک  ملکی حالات حاضرہ سے متعلق مثبت خبریں شئیر کرنے سے ملک کے اندرونی خلفشار اور ہیجانی کیفیت میں  کمی آئے گی اور بیرون ملک پاکستان کا امیج اچھا ھونے سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ھو سکتا ھے۔ 

جنرل آصف غفور کی یہ نصیحت صرف میڈیا ھاوسز کے لیے نہیں تھی بلک سوشل میڈیا پر ایکٹو ان فیک اکاؤنٹس چلانے والوں کے لیے بھیذ تھی جو اسوقت ملک میں بدامنی کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔  اب رہی بات مثبت خبروں کی تو سانحہ ساہیوال تو مثبت خبر ھونے سے رہا۔ملک میں پنپنے والی  بےضابطگیاں اور نت نئے سکینڈلز کی پردہ پوشی کرنا،  ایسے عناصر کی معاونت کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کہلایا جا سکتا۔ 

امثبت خبروں کی دوڑ میں کہ جہاں انڈین پائلیٹ کو امن  جیسچر کے طور پر رہا کرنے کی خبریں ھر میڈیا چینل پر سر گرم رہیں اور پاکستان نے عالمی برادری سے خوب داد وتحسین وصول کی،  وہاں ہی کنٹرول لائن پر انڈین گولہ باری سے مرنے والے لوگوں کی خبریں ایک منفی یا غیر مثبت خبر کے زمرے میں شامل ھو نے لگیں۔۔ کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ اور گولہ باری سے جانی و مالی نقصان کنٹرول لائن کی دونوں جانب ھو رہا ھے اور اسکا مسلسل نشانہ کنٹرول لائن پر دونوں اطراف میں بسنے والے کشمیری بن رہے ہیں۔ لوگ اس گولہ  باری سے اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ وہ اپنے گھروں پر امن کا سفید پرچم لہرانے پر مجبور ھو گئے ہیں تاکہ دونوں افواج کو پیغام جا سکے کہ ہم بھی امن کے خواہاں ھیں۔ کنٹرول لائن پر انڈین افواج فائرنگ کریں یا  پاکستانی افواج جوابی کاروائی کریں، اگر اس منظر کو ڈرامائی انداز میں دیکھا جائے تو کشمیریوں کو جو رول ادا کرنے کو دیا گیا ہے وہ انایکسٹراز ، اداکاروں کا ھے جنھیں دوران جنگ  ہر حال میں مرنا ہی ھوتا ہے۔  کہانی آگے چلتی ہے اور یوں کہانی میں نئے کردار مرنے کے لیے شامل کر دئیے جاتے ہیں۔  

اس جنگی ماحول سے تنگ ا کر اھل علاقہ کی طرف سے دونوں اطراف میں بڑھتی ہوئ کشیدگی اور گولہ باری  کو روکنے کے لیے اوازیں بلند ھونا شروع ھو چکی ہیں جنکی گونج سوشل میڈیا تک سنائی دینے لگی ہے۔  لیکن افسوس کہ کنٹرول لائن پر کھیلی جانے والی خون کی ھولی نہ تو  مثبت خبر بن سکی  اور نہ ہی کنٹرول لائن پر لاشیں اٹھانے والے امن کے متلاشی کسی مثبت خبر کی زینت بن سکے۔