Thursday 22 August 2019


محصورین کی  عید


کیا عید منائی لوگوں نے

جہاں گھر بازار مقفل ہیں

جہاں شہر ھوئے ویرانے کی نظر

جہاں مسجد ممبر سب بند ہیں

بس غاصب فوج کا پہرا ھے

ھے حکم کوئ نہ نکلے باھر 

ھر بیمار  اب سوچتا ھے 

کیسے  دوا پہنچے گی انہیں

جہاں ھر دکاں مقفل ھے

ھر سو کرفیو کا ڈیرا ھے

بچوں کی بلکتی  آوازیں 

جو دیکھنے سے اب قاصر ہیں

کیا ماں انہیں اب یہ سمجھائے

کیوں صبح کا رنگ اب کالا ھے

دہلی سے چلی اک لڑکی اب

 رخت سفر یوں باندھتی ھے

 توڑ کے پہرے اب، سب وہ

دل ہی دل میں یہ ٹھانتی ھے

شوگر کے مرض میں والد کو 

اک انسولین پہنچانے پر

کیا گزری اس پہ، وہ جانتی ھے

کشمیر تیر ی قسمت ہے  ایسی 

تجھے اپنوں، غیروں نے گھیرا 

ترے نام پہ جاں جو وار گئے

انکی بیواؤں، یتیموں کا

ان بے وارث ضعیفوں کا

ظلم کی کالی راتوں میں 

جب ٹپ ٹپ آنسو گرتا ہے

ان معصوموں کے نام پہ جب

کچھ کھیل تماشے والے لوگ

 ترے نام کی ڈگڈگی باندھتے ہیں 

یوں انکا چولہا جلتا ھے

توقیر لون