Sunday 23 August 2015

ہمیں است و ہمیں است ، نئے مظفرآباد سے کوٹلی تک


 ہمیں است و ہمیں است
(نئے مظفر آباد سے کوٹلی تک)
  میرے دوسرے سفر کے اسباب جو اچانک ہی پیدا ہو گئے تھے،  کوٹلی سےایبٹ آباد اور پھر مظفر آباد سے ہوتے ہوئے واپس کوٹلی تک کا تھا۔ میری بھانجی  جو میڈیکل کالج سے گھر چھٹیوں پر آئی ہوئی تھی اب اسکو  واپس کالج چھوڑنا تھا۔میں ، میرا   ماموں زادکزن  ، اپنے بھانجے  اور بھانجی  کے ہمراہ  اسلام آباد  اور ایبٹ باد کی جانب روانہ ہو گئے۔  جوں ہی ہم آزاد کشمیر سے اسلام آباد پہنچے تو پہلی چیز جو ہم نوٹ کرتے ہیں وہ سڑکوں کا نظام ہے۔ ہماری خستہ حال سڑکوں کے مقابلہ میں اسلام آباد کی بہترین سڑکوں پر جب گاڑی چلتی ہے تو  فرق صاف نظر آنے لگتا ہے۔ اسلام آباد سے ایبٹ آباد تک سڑکیں کشادہ  اور  سفر انتہائی آرام دہ تھا۔  راستے میں مجھے اپنے دوست حسنین گیلانی صاحب  کا فون آ گیا کہ  مظفر آباد سے لازمی ہوتا ہوا جاؤں ۔  ویسے بھی مجھے ان سے ملے ہوئے 14 سال ہو چکے تھے۔ موقع کو غنیمت جانا اور چل پڑے مظفرآباد کی طرف۔ میرے ماموں زاد پیسنجر سیٹ بیٹھ کر گاڑی کی چابی میرے حوالے کر دی۔ رات  ہو چکی تھی اور آگے کا سفر بھی پہاڑی تھا۔ جوں جوں ہم مظفر آباد کی طرف بڑھ رہے تھے  تو ں توںاندھیرا  گہرا اور   پہاڑ مزید بلند ہو رہے تھے۔ اتنے بلندی پر ڈرائیونگ کا  شاید میرا یہ پہلا تجربہ تھا ۔ جب ہم مظفر آباد کے قریب پہنچے تو پہاڑ کی چوٹی سے مظفر آباد شہر نہایت خوبصورت اور روشنی میں  ڈو با ہوا لگ رہا تھا۔

مظفر آباد پہنچ کر اپنے دوست گیلانی صاحب سے فون پر ڈائرکشن لی اور ولج ویو ریسٹورنٹ پہنچ گئے جہاں وہ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ریسٹورنٹ دریائے جہلم جو کہ وتاستا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،  کے کنارے واقع ہے ۔ یہاں سیاحوں کے لیے نہایت خوبصورت ہٹس  بنائے گئے تھے ،   رات کو جب ہر طرف خاموشی طاری ہو جاتی  ہے تو پھر دریا کے پانی کا شور  کانوں میں رس گھولنے والی موسیقی  کا سماں باندھ کر ایک پوتر قوالی کا روپ دھار لیتا ہے۔ رات کا کھانا ہم نے دریا کے کنارے لگی ہٹس میں  بیٹھ کرکھایا، اس جگہ بیٹھ کر  کھانا کھانے کا جو لطف اور مزہ مجھے اس رات  کو حاصل ہو ا ، ایسا   شاید ہی مجھے کہیں اور مل سکے۔ 
حسنین گیلانی صاحب کا گھر ولج ویو ریسٹورنٹ سے کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔ ہم نے رات وہاں بسر کی اور صبح ناشتے کے بعد اپنے مہربان دوست سے رخصت چاہی تا کہ مظفر آباد شہر کی کچھ سیر کی  جائے۔ مجھے یاد ہے کہ میں آخری بار مظفر آباد تب آیا تھا جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہم اپنے سکول کی طرف سے بطور سکاؤٹس گئے تھے۔ اس دور کے مظفر آباد اور آج کے مظفر آباد میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ 2005 کے زلزلہ کی وجہ سے  جب سارا مظفر آباد  ملیا میٹ ہو گیا اور لا تعداد  انسانی جانیں لقمہ ء  اجل بن گئی  تو  اہلیانِ آزاد کشمیر کے علاوہ دوسرے ممالک کی رزاکارانہ ٹیمیں بھی کشمیر آئیں، جنھوں نے بڑھ چڑھ کر فلاح بہبود کا کام کیا  اور  کئی لوگوں کو ملبے کے ڈھیر سے زندہ نکالا گیا۔ بیرون ملک ہمارے لوگوں نے دل کھول اپنے بھائیوں کی مالی مدد کی تا کہ وہ جلد سے جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔ زلزلہ کے بعد  غیر ملکی امداد کے باعث مظفر آباد شہر کو دوبارہ سے تعمیر کیا گیا، کشادہ سڑکیں ، نئے پل بنائے گئےاور شہر کو نئے سرے سے پھر آباد کیا گیا۔  اب جو مظفر آباد میری آنکھوں کے سامنے تھا وہ پرانے مظفر آباد سے تقریبا" 50 سال آگے نکل چکا تھا۔

مظفر آباد شہر سے نکل کر ہم کوہالہ کی جانب  نکل پڑے تا کہ مری اور اسلام آباد سے ہوتے ہوئے ہم کوٹلی کو سدھاریں۔  کوہالہ میں  دریائے جہلم کنا رے سڑک کی حالت بہت ہی خراب تھی۔ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑک کا آدھا حصہ ٹوٹ کر نیجے گر چکا تھا اور ہمیں سڑک پر بمشکل اتنی ہی جگہ ملی  کہ جہاں سے گاڑی کے ٹائر گزر سکیں۔ کسی نے ایک کھڈے میں کچھ پتھر رکھ دیے تھے تا گاڑی ٹائر اسکے اوپر سے گزر سکے اور گاڑی کھڈے میں نہ پھنس سکے۔ میں نے اور میرے بھانجے نے باہر نکل کر اپنے ماموں زاد کو گاڑی وہاں سے نکالنے میں گائڈ کیا اور اللہ اللہ کر کے وہاں سے جتنی جلدی ہو سکے رفو چکر ہونے کی فکر کرنے لگے۔ کیونکہ سڑک کے اگلے حصے میں بھی دراڑ آ چکی تھی جو کہ کسی خطرناک حادثہ کے انتظار میں تھی نیچے جہلم طغیانی کا باعث اپنے پورے جوبن سے بہہ رہا تھا  اسے دیکھ کر مجھے ایکدم کسی انجانے خوف نے گھیر لیا، میں فورا " وہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔

آگے چل کر نہایت  دلفریب مناظر دیکھنے کو ملے،  بلند و بالا پہاڑ ایسے لگ  رہے تھے جیسے آسمان کو چھو رہے ہوں ہم  چھوٹے چھوٹے گاؤں اور بازاروں   میں سے گزرے۔ ایک جگہ بازار میں تازہ کلچے بن رہے تھے۔ میں گاڑی روک کر دکان پر چلا گیا جہاں سے میں نے خستہ کلچے ، مکی کی روٹی اور میٹھی روٹی خرید لایا۔  یہ ایک چھوٹا سا بازار تھا جہاں سے بمشکل دو گاڑیا ں ایک ساتھ گزر سکتی تھیں۔ اسے دیکھ کر مجھے ہجیرہ کا بازار یا دآ گیا۔ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی  شاید انتظامیہ اس علاقہ کو اپنے کاغذوں سے فارغ کر چکی تھی۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ آزاد کشمیر کی  95 فیصد سڑکوں کی حالت ایسی ہی  کیوں ہے؟  آخر کیا وجہ ہم لوگ اس 21ویں صدی میں بھی اسقدر ترقی نہ کر سکے کہ اچھی سڑکیں ہی بنا لیں۔ میں نے موبائل فون سے گھر فون کرنے کوشش کی تا کہ اپنی خیریت کی اطلاع دے دوں،  لیکن نیٹ ورک کوریج نہ ہونے کی وجہ سے کال کنیکٹ نہ ہو سکی۔

جیسے ہی ہم مری  کی حدود میں داخل ہوئے تو میرے موبائل کے سگنل بھی  پورے آ گئے اور انٹرنیٹ بھی 4جی کی سروس شو کرنے لگا۔ میں نے گھر فون کر کے والدہ صاحبہ کو خیریت کی اطلاع دی تو انکی تسلی ہو گئی۔ اب ہماری گاڑی فراٹے بھر رہی تھی  اور ہم اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سڑک نہایت کشادہ اور بہت اچھی بنائی گئی تھی اسے دیکھ کر مجھے یورپ کی سڑکوں کا گمان ہونے لگا۔ مری سے اسلام آباد کا سفر بہت ہی عمدہ تھا اور ہم باتوں باتوں میں اسلام پہنچ بھی گئے۔ اسلام آباد   پہنچ کر ہم نے یہی سوچا کہ پہلے پیٹ پوجا پھر کام دوجا۔ ہم ایک ریسٹورنٹ میں گئے جہاں کی بریانی کافی مشہور تھی۔ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ اندر تو تل رکھنے کو بھی جگہ نہیں تھی۔ خیر کچھ دیر انتظار کے بعد ہمیں جگہ مل ہی گئی اور ہم نے بیٹھ کر آرام سےپیٹ تپسیا کی۔

کھانے سے فراغت کے بعد ہم نے اپنی کا رخ کوٹلی  کی طرف کر لیا اور اسلام آباد کی خوبصورت سڑکوں کو پیچھے چھوڑتے چلے گئے۔  راستے میں میں نے دوبارہ  موبائل سے فون کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود، کہوٹہ سے آگے جب آزاد کشمیر کی طرف بڑھتے جائیں تو  موبائل کے سگنل غائب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ شاید بلندو بالا پہاڑوں کی چوٹیوں سے انہیں ڈر لگتا ہے۔ یہاں سے کوٹلی تک کا سفر انتہائی تھکا دینے والا ہے۔ خدا خدا کر کے ہم کوٹلی کی حدود میں داخل ہوئے تو جان میں جان آئی۔ راستے میں کوٹلی سے کچھ پہلے بڑالی کا مقام پر کورین فرم کے تعاون سے ڈیم بنانے کا کام زور و شور سے جاری تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس ڈیم سے 100 میگا واٹ  تک بجلی پیداکی جا سکے گی  لیکن  سوال یہ ہے کہ کیا یہ بجلی کوٹلی کے حصے میں بھی آئے گی؟  کچھ دیر یہاں رک کر کام کا جائزہ لیا اور چند تصاویر بھی اتاریں۔

شام ہو چکی تھی اور ہم کوٹلی شہر میں داخل ہو چکے تھے۔ جب گھر پہنچے تو والدہ صاحبہ برآمدے میں بیٹھی ہماری آمد کی راہ دیکھ رہی تھیں۔ ہمیں دیکھ کر بسم اللہ کیا اور متمئن ہو گئیں کہ ہم خیریت سے گھر پہنچ گئے ہیں۔ وہ ناراض ہو رہی تھیں کہ بار بار فون کرنے پر سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا  ہم خود ہی فون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع ہی  دے دیتے۔لیکن والدہ کو کون سمجھائے کہ ہمارا علاقہ متنازعہ علاقہ ہے۔ یہاں موبائل فون کے سگنل بھی اجازت کے  بغیر نہیں آ سکتے۔

Monday 3 August 2015

ہمیں است و ہمیں است، اندر کا گند


ہمیں است و ہمیں است
(اندر کا گند)



کوٹلی شہر آبادی کے لحاظ سے کافی تیز 
رفتاری سے بڑھ رہا ہے اور اس  کے ساتھ  ساتھ نئے مسائل کا جنم بھی ہوچکا ہے۔ شہر میں صفائی کا نظام تو موجود ہے مگر بڑے پیمانے  پر غیر مؤثر  ہو چکا ہے میں نے اپنے ماموں زاد کو ساتھ لیا اور شہر کی کھنڈر نما سڑکوں  اور ڈسٹرکٹ ہسپتال جو کہ  شاید اپنے غلیظ ترین دور سے  گزر رہاتھا کی کچھ تصویریں اور وڈیوز بنائیں تا کہ فیس بک پر آگاہی مہم کا آغاز کیا جا سکے ۔ یہ تمام وڈیوز بنانے کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ لوگوں میں یہ احساس  پیدا ہو سکے کہ وہ کس قدر غلیظ ماحول میں خوشی سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 
  یومِ مئی کے  موقع پر جہاں لوگ عالمی مزدوروں کا دن مناتے ہیں اور بڑی لمبی لمبی تقاریر کرتے ہیں میں نے اس دن ان لوگوں کو کام کرتے دیکھا جو کہ ہمارے معاشرے میں شاید انسان ہی نہیں تصور کیے جاتے۔ یہ تھے ہمارے بلدیہ کے ملازمین جنہیں عرفِ عام میں ہم چہوڑے کہا کرتے ہیں۔ جی ہاں وہی چہوڑے جو روز ہمارے  گلی کوچوں میں صفائی کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔   میں نے ان سے شہر کی حالت کے متعلق کچھ جاننے کی کوشش کی کیونکہ میرے نزدیک ان سے موزوں اور کوئی شخص نہیں ہو سکتا  جو اس بات کا جواب دے سکے کہ روز مرہ کی صفائی کے باوجود شہر میں کوڑاکرکٹ  کیوں بڑھ رہا ہے۔
چہوڑا جی کا کہنا تھا کہ ہم صفائی تو روز کرتے ہیں اور لوگوں کہتے بھی ہیں کہ اپنے گھر  کا کوڑا اپنے گھر کے دروازے کے پاس رکھ دو تو ہم بآسانی اسے اٹھا کر لے جا سکتے ہیں لیکن لوگ سنتے ہی نہیں ہیں، اپنے گھر کا کوڑا دوسروں کے گھر کے سامنے پھینک دیتے ہیں اور جس کا جی چاہے جہاں مرضی کوڑا پھینک دیتا ہے۔ کوڑا کرکٹ کے لیے سرکار نے بڑے بڑے کوڑے کے ڈرم رکھے ہوئے ہیں لیکن یہ لوگ پھر بھی سڑک پر ہی پھینک دیتے ہیں۔   ان ورکرز کا  سرکا ر سے یہ گلہ  تھا کہ سرکار انہیں حفاظتی سامان ، سیفٹی  شوز اور دستانے وغیرہ بھی مہیا کرے تا کہ کام کے دوران ممکنہ حادثہ سے  بچا جا سکے۔ میں ان کی ان باتوں سے متائثر   ہوے بغیر نہ رہ سکا کیونکہ ان لوگو ں کو  جنہیں ہمارے لوگ  چہوڑے سمجھتے ہیں ان کی نظر میں ہماری  کیا  اوقات ہے ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ  اصل میں چہوڑے تو ہم لوگ ہیں جو غلاظت کے ڈھیر جگہ جگہ لگا رہے ہیں، یہ لوگ تو اسے صاف کرتے پھرتے ہیں۔شفیع کوچ بھی یہی کہا کرتاتھا کہ اپنے گھر کا کوڑا دوسروں کے گھر کے باہر  پھینکنے سے اپنے اندر کا گند صاف نہیں ہو تا  جی بلکہ اورکھل کھلا کر سامنے آتا ہے۔

Saturday 1 August 2015

ہمیں است ہمیں است، تتہ پانی کی جکوزی

ہمیں است و ہمیں است
(تتہ پانی کی جکوزی)



تتہ پانی ایک ایسا مقام ہے جواپنے ابلتے ہوئے پانی کےچشموں
   
کی وجہ سے آزاد کشمیر بھر میں مشہور ہے۔ اس پانی میں گندھک کی آ  میزش   پائی جاتی ہے جو کہ کہا جاتا ہے کے  جوڑوں کے درداور دیگر بیماریوں کے لیے کافی مفید ہے۔ ہم جب نیچے گرم چشموں پر پہنچے تو میں نے اکا دکا آدمی جو کہ   
امنڈتے ہوئے گرم پانی پر دریائی  پتھروں سے بیڈ  بنا کر  اسکے اوپر چٹائی ڈال کر لیٹے ہوئے تھے  اور کمبل اپنے اوپر  ڈال کر شاید بھاپ  سے علاج کی مشق کر   رہے تھے۔ ہم بھی گرم پانی میں اپنے پاؤ ں ڈال کر بیٹھ گئے۔ ایسے محسوس ہو  رہا تھا جیسے کو ئی پاؤں پر  ہلکا ہلکا مساج کر رہا ہو اور دن بھر کے سفر کی تھکن بعد  ہم انتہائی ریلیکسڈ محسوس کر رہے تھے۔ یورپ میں  لوگ جکوزی  اور مساج کے لیے باقاعدہ پیسے خرچ کرتے ہیں اور ہمارے ملک میں  تو یہ خدا کی طرف سے  ایک  انمول عطیہ ہے۔   نجانے کیوں ہماری حکومت  اس قسم کے مقامات پر توجہ نہیں دیتی  وگرنہ ایسے دیدہ زیب  ،  قدرتی حسن اور   معدنیات سے مالا مال مقامات تو  ملکی اور قومی آمدنی کا نہایت مؤثر  ذریعہ بن سکتے ہیں ۔  یورپ میں تو  کئی ممالک  ایسے ہیں کہ جن کی ملکی آمدنی  اچھا خاصہ حصہ سیاحت پر منحصر ہےاور جس کی وجہ سے  لوگوں کا معیارِ زندگی بھی بہت بہتر  ہے۔ 

شام ہو رہی تھی اور ہمیں اب گھر کے لیے روانہ ہونا تھا، ہم نے جلدی جلدی پانی کی بڑی بڑی بوتلیں جو ہم گھر سےساتھ
ہی  لے کر گئے تھے نکالیں اور گرم ابلتا ہوا پانی ان میں بھرنے لگے تا کہ گھر کے باقی لوگ بھی  اس پانی میں پاؤں رکھ کر فرحت اور تازگی محسوس کر سکیں۔  ان کے لیے اس سے بہترین تحفہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔  راستے میں ساردہ کے مقام پر کچھ دیر کے لیے رکے جو کہ کوٹلی شہر کا بڑا مشہور ویو پوائینٹ ہے۔ رات کے اندھیرے میں کوٹلی شہر جیسے روشنیوں میں نہا گیا ہو، ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے تارے زمین پر اتر آئے ہوں۔ یہ دیدہ ذیب منظر دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اپنے کیمرہ اٹھا کر فوٹو کھینچنے لگا۔ابھی میں کیمرہ سیٹ کر کے فوٹو کھینچنے ہی لگا تھا کہ یک دم کوٹلی کا شہر میرے کیمرے کے لینز سے غائب ہو گیا، میں آنکھیں جھپکانے لگا کہ شا ید میری بصارت نہ چلی گئی ہو۔  لیکن ایسا  ہر گِز نہیں تھا،  مجھے میرے ماموں زاد نے مطلع کیا کہ جناب بجلی چلی گئی ہے اور اب شاید گھنٹے ، دو گھنٹے بعد  تشریف لائے لہٰذا  یہاں کھڑے رہنے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں کچھ مایوس سا ہو کر واپس گاڑی میں بیٹھ گیا اور ہم گھر کی طرف چل پڑے۔  ہمارے ہاں بجلی کی آنکھ مچولی ہوتی رہتی ہے  اور گرمیوں میں تو  ایک گھنٹہ بجلی آتی ہے اور 3 گھنٹے  غائب رہتی ہے۔ اللہ بخشے شفیع کوچ کو ، کہا کرتا تھاکہ   بجلی جی گرمی  میں کام زیادہ کرنے کی وجہ سے کافی تھک جاتی ہیں اور  انہیں  بھی تو  آخر کار  آرام کی ضرورت  ہوتی ہے۔ بجلی جی اوروں  کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بھی تتہ پانی کے گرم گرم پانی میں پاؤں رکھ کر کچھ دیر آرام کر لیا کریں   تا کہ فریش ہو کر دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر جلد آ جایا کریں۔قسم سے وہ جب نہیں ہوتیں تو لوگ انکو کافی مِس کرتے ہیں۔