Tuesday 28 July 2015

ہمیں است و ہمیں است ، وڈے پائے یا چھوٹے پائے



ہمیں است و ہمیں است     
(وڈے پائے یا چھوٹے پائے)


میر  ے برادر ِ نسبتی ماشاء اللہ کھاتے پیتے گھرانے سے ہیں، اور ہ   دس بیس آدمیوں میں کھڑے دور سے پہچانے جاتے ہیں، مجھے بھی اتفاق سے دور سے ہی نظر آ گئے تھے ، ایک تو قد کاٹھ کے  لحاظ سے اونچا  قد اور دوسرا   صحت مند اتنے کہ خدا نے ساری صحت کوٹ کوٹ کر انھی میں بھر  دی تھی، خیر بڑے ہی مدد گار ثابت ہوئے اورٹرالی  کے ساتھ  مزید کھینچا تانی اپنے ذمے لے لی۔  خدا خدا کر کے لاہور انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے جدا ہوئے یہ جدائی بھی کسی نعرہ ء تکبیر سے کم نہ تھی۔ صبح     کا وقت تھا  اور  میرے برادرِ نسبتی کی رائے تھی جو کہ  اندرو اندر ان کی خواہش پر منحصر تھی کہ چنے کلچے اور پائے کا ناشتہ کر کہ ایک ہی بار سونے کے لیے تشریف لے جائی جائے اور پھر لمبی تان کر لمبے لمبے  ہیلی کاپٹر چلائے جائیں ۔ہم گاڑی میں بیٹھ کر باتوں میں مصروف ہو گئے، میری خوشدامن صاحبہ سب کی خیر خیریت پوچھ رہی تھیں ، لیکن میرے برادر نسبتی   جو کہ کافی دیر سے کچھ کہنے کو کوشش کر رہے تھے آخر مو قع پا کر  بڑے معصومانہ انداز میں مجھ سے پوچھا " پا ئین ، پائے وڈے لینے یا چھوٹے "؟  ۔

 لاہور میں کلچے ویسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہاں نان، صرف فرق یہ ہے کہ جس نان  پر تل لگا دیے جائیں وہ کلچہ ہونے کا شرف حاصل کر لیتا ہے  اور جس   پر تل نہ لگے ہوں وہ  نان  ، نان ہی رہتا ہے ،  بس اتنی سی دیر لگتی ہے  نان کو  کلچہ ہونے میں۔ اس کے بر عکس  ہمارے جموں کشمیر  کا  کلچہ ایک الگ ہی وضع و قطع  کا ہوتا ہے ۔ مظفر آباد کے  مشہورِ زمانہ کلچے  اپنی مثال آپ ہیں جو کہ  چائے کشمیری ہو، پاکستانی ہو یا    پہانویں ہو قہوہ، سب کے ساتھ اس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔  کشمیری چائے جو کہ نمکین چائے کہلاتی  ہے، اپنے جغرافیائی حدود  اور موسمی تغیرات کو جب پار کر کے وادی کے اس طرف آئی تو نمکین ہونے کے بعد کچھ میٹھی بھی ہونا شروع ہو گئی،  اب میری چائے میں جب تک ہلکے  نمک کے ساتھ چینی کی  ہلکی سی آمیزش نہ ہو تو پھر سواد نہیں آتا۔ ویسے نمکین چائے کابھی اپنا ہی چس ہے۔  لاہور میں کچھ کشمیری گھرانے صرف اپنی چائے کی وجہ سے ہی کشمیری لگتے ہیں، کشمیر ی چائے میں انہوں نے نمک ہی ڈال کر لازمی پینا ہوتا ہے،  چاہے  اس سے انکا بلڈ پریشیر  ہائی ہو جائے یا پھر ہو برین ہیمرج، آخر کار بندہ کدھرے نہ کدھرے سے کشمیری تو لگنا چاہئے نا۔

لاہور میں  جہاں میرے خوشدامن صاحبہ مقیم تھیں وہ بحریہ ٹاؤن کہلاتا ہے، نہایت ہی خوبصورتی سے  ڈیزائن کیا گیا یہ ماڈل  سٹی اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کی سڑکوں ،  گھروں، اور صفائی ستھرائی  اور ڈئیول کیریجز کے نظام کو دیکھ کر یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کی ہم پاکستان کے  کسی شہر میں ہیں۔ پاکستان میں موجودگی کا اندازہ صرف اسی صورت میں ہوتا ہے کہ جب گاڑی میں کہیں جا رہے  ہوں اور آپ کی ڈرایئور سیٹ پر براجمان شخص چوک میں پہنچنے سے تقریبا  300گز پہلے ہی زور زور سے  ہارن دینا شروع کر دے تا کہ دوسرے لوگ متنبہ ہو جائیں!           یا پھر شاید سہم جائیں۔  میرے استفسار  پر معلوم ہوا کہ   یہ حرکت اس لیےکی جاتی ہےتا کہ کوئی غلطی سے بھی آپ کی سواری مع تشریف آوری  کے سامنے سے گزرنے کی جسارت نہ کر سکے مبادہ آپ کو اپنی رفتار ہی نہ کم کرنی پڑ  جائے۔ ویسے  ایسی حرکت سے  اضافی وئیر اینڈ ٹئیر سے بھی بچا جاسکتا ہے بشرطیکہ آپ  کا بیچ بچاؤ ہو جائے تو!      ۔     اب مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ پاکستانی ایویں ہی بہادر اور زندہ دل قوم مشہور  نہیں ہیں۔ میرا خیال تھا کہ  بحریہ ٹاؤن کے سارے ڈرائیور حضرات  بہادر اور زندہ دل ہیں مگر    میرا اندازہ کچھ کچھ غلط ثابت ہوا۔

جاری


No comments:

Post a Comment