Tuesday 29 October 2019



پاکستان سے پالستان تک کا سفر۔


مطالعہ پاکستان ایک ایسا مضمون یا مشین کہہ لیجئے ہے جسکا بر صغیر کی  ھزاروں سالہ تاریخ کو کوزے میں انتہائ مہارت سے بند کر نے میں کوئ ثانی نہیں۔  یہ ہماری پاکستانی قوم  کی آج تک کی  ایک ایسی ایجاد ہے جو  ٹائم مشین کا کام کرتے ہوئے پورے ھندوستان کی تاریخ کو فاسٹ فارورڈ کر کے انتہائ خوبصورتی سے  تقسیم ہند تک لے آتی ھے اور پھر اسکے بعد ایکدم پاکستان کی تاریخ شروع ھو جاتی ہے جسے جب  اور جیسے چاہا کی بنیاد پر ضرورت کے مطابق  فاسٹ فارورڈ بھی  کر لیا جاتا  ھے۔ 
لفظ پاکستان کے خالق چوھدری رحمت علی کے مطابق "پ" پنجاب سے "الف" افغانیہ سے "ک" کشمیر سے، "س" سندھ سے اور "تان" بلوچستان سے لے کر ایک نام تخلیق کیا گیا جسے  پاکستان کا نام دیا گیا۔ ان تمام حروف کی ترتیب بدل دی جائے یا کوئ حرف حذف کر لیا جائے  تو پاکستان لفظ  کا وجود  خطرے میں پڑ جاتا ھے ۔ شاید یہ چوہدری رحمت علی خان صاحب کی دور بینی ہی تھی جو  بنگال کو لفظ پاکستان میں شامل نہیں کیاکہ مبادا مستقبل کے حالات کے پیش نظر لفظ پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے۔ اور دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اس مرد قلندر کی مستقبل شناسی کی وجہ سے بنگال کے علیحدہ ھونے کے باوجود  "لفظ"  پاکستان کی سالمیت پر کوئ آنچ نہ آ سکی ویسےبھی بنگال کی تو لفظ پاکستان میں کوئ گنجائش بنتی ہی نہ تھی۔ اب اگر ان تمام حروف جن سے مل کر پاکستان بنا ھے  "پ"  پنجاب کے علاؤہ افغانیہ، سندھ، بلوچستان، اور کشمیر کے حالات کو اگر دیکھا جائے تو ان میں محرومیوں کے آثار زیادہ  پائے جاتے ہیں۔ یہاں کی عوام کسی نہ کسی شکل میں حکومت یعنی  "پ " سے خائف ہی رہتے ہیں۔ ان علاقوں کی محرومیوں کا اندازہ وہاں پر موجود عوامی کو دی گئ  سہولیات سے بخوبی لگایا جا سکتاھے۔ بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقے تو اب بھی سولہویں صدی میں جی رہے ہیں۔ یہ  وہ علاقے ہیں جو پاکستان کے براہ راست کنٹرول میں ہیں لیکن بقول مطالعہ پاکستان ایک حرف "ک" کشمیر جو اسکے براہ راست کنٹرول میں تو نہیں لیکن اسے شہہ رگ کی حیثیت حاصل ہے اور حالت یہ ھے کہ آدھی سے زیادہ شہہ رگ پر ھندوستان کا قبضہ ھو چکا ھے۔اب اگر چوھدری رحمت اللہ صاحب کے فلسفہ لفظ پاکستان کو مد نظر رکھا جائے تو تصویر کچھ یوں بنتی  ھے کہ "ک" یعنی کشمیر کی دم تو ھندوستان نے کاٹ لی ھے پیچھے دم کٹا "ک" رہ گیا ھے۔ یعنی۔ چوہدری  صاحب کا فلسفہ  پاکستان سے شروع ہو کر  پالستان تک آن پہنچا ھے۔ اب مستقبل میں اس فلسفہ کیساتھ کیا کیا ھونا ھے یہ مطالعہ پاکستان کی ٹائم  مشین  بنانے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے کتنا فاسٹ فارورڈ کرسکتے ہیں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ  شہہ رگ کے بغیر کسی بھی وجود کا زندہ رہنا ناممکنات میں سے ہے۔ یا تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ھو گا کشمیر شہہ رگ نہیں ھے ، یہ آدھی ہو ، پوری ھو یا پھر نہ ھو اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا،  یا  یہ کہ لفظ پاکستان کا فلسفہ اب اتنا جاندار نہیں رہا، یا پھر یہ کہ یہ ایک من گھڑت بات ہے ۔ 
 مسئلہ کشمیر جو گزشتہ 71 سالوں سے ابھی تک حل طلب ھے۔ اس دوران پاکستان اور کشمیر کےلوگوں نے کتنے نشیب و فراز دیکھے لیکن یہ قضیہ جسے شہہ رگ بھی کہا جاتا ھےمزید الجھتا ہی گیا۔ آج یہ حالات ہیں کہ بھارت نے کشمیر کو باقاعدہ اپنا حصہ بنا لیا ھے لیکن افسوس کہ شہہ رگ کا راگ الاپنے والوں کو اپنی شہہ رگ کٹ جانے کا احساس تک نہیں ھوا۔ 
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب کشمیر میں لوگ اپنا  تن من دھن پاکستان کے لیے قربان کرنے کو تیار تھے لیکن وقت کے تھپیڑوں نے آہستہ آہستہ لوگوں  کے دلوں میں ایک متبادل سوچ  کو جنم دیا جو خود مختار کشمیر کی شکل میں سامنے آنا شروع ھوئ۔ یہ سب کیسے ممکن ھوا؟   جو لوگ پاکستان کو اپنا محور مانتے تھے انکے دل میں ایک ازاد اور خود مختار ریاست کا بیج کیسے پیدا ھو گیا؟  یہ لوگ ایک متبادل رستے کے انتخاب پر کیوں مجبور ھوئے۔؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر آجتک مملکت خداد سوچنے اور سمجھنے سے قاصر رہی ھے۔۔ 
ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے، ہمیں اس محور یعنی مملکت خداد پاکستان  کا تنقیدی جائزہ لینا ھو گا جن سے انکے اپنے لوگ دن بدن خائف ھوئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے حالات شروع دن سے ہی اس قدر غیر مستحکم رہے ہیں کہ یہ کسی کی کیا خود اپنی مدد کرنے سے قاصر رہا ہے۔ ملک میں ہمیشہ سے ایک طبقہ حاکم چلا آیا ہے اور دوسرا وہ طبقہ ہے جو انکے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ھے جسکا بڑا حصہ عوام پر مشتمل ہے۔ یہ حاکم طبقہ محکوم  طبقے کی کبھی مذھب کے نام پر اور کبھی وطن کے نام پر گاہے بگاہے برین واشنگ کرتا رہتا ھے تا کہ   کسی نہ کسی شکل میں اپنی اجارہ داری قائم  رکھ سکے۔ اس عمل کے لیے مفاد پرست عناصر اس حاکم طبقے کے تلوے ہر وقت چاٹنے پر مامور رہے تا کہ انہیں بھی اس میں سے بقدر ضرورت حصہ عنایت فرمایا جائے۔
 مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی کاوشوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان جس نے ہمیشہ ھر فورم پر مسئلہ کے حل کے لیے  اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ہمیشہ "کہنے کی حد تک"  زور دیا۔  پاکستان  نے چار جنگیں کشمیر کے نام پر  تو لڑ لیں لیکن  اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے سے پس وپیش سے کام لیا جاتا رہا۔ حکمرانوں کے اس رویہ سے حکومت پاکستان کا کشمیر سے والہانہ عشق کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ھے۔ حالت یہ ھو چکی ہے کہ شہہ رگ کا راگ الاپنے والوں کی شہہ رگ تو کٹ چکی ھے مگر وہ پھر بھی کس قدر کمال ہوشیاری سے زندہ ہیں یہ کوئ ان سے سیکھے۔ 
بحیثیت کشمیری آج اگر پاکستان کے حالات پر نظر دوڑائ جائے تو  معلوم ھو گا کہ ایسے حالات میں کسی بھی قسم کے  مستحکم مستقبل کی ضمانت نظر نہیں آتی ۔  ایک عام   کشمیری بھی یہ سوچنے پر مجبور ھو چکا ھے کہ کب تک ہم اس نظام کا حصہ بننے کی سعی لا حاصل کرتے رہیں گے جو اندر سے کھوکھلا ھو چکا ھے۔ کشمیر کو آزاد دیکھنے والے کشمیری اب ان بے تعبیر خوابوں اور نظام سے تنگ آ چکے ہیں، اور ریاست کی  مکمل آزادی کا خواب دیکھنے والوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ھوتا جا رہا ھے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ھے، یہ وہی نوجوان ہیں جو آنے والے کل میں  کشمیر کا مستقبل بنیں گے۔  خودمختار کشمیر کی بات کرنے والے لوگوں کی سوچ صرف کشمیر کی خودمختاری پر ہی محیط نہیں ھے بلکہ وہ اسکے ساتھ ساتھ  ایک ایسی ترقی پسند سوچ کے بھی قائل ہیں جہاں جمھوری حکومتیں برادریوں، وڈیروں اور ان دیکھی مخلوق کے دم پر نہیں بلکہ خالصتاً عوام کے ووٹ کی طاقت پر قائم ھونگی،  منافقانہ نظام کا خاتمہ  ھو گا، جہاں پر لوگوں کے حقوق کو غصب نہیں کیا جائے گا بلکہ سب کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع اور حقوق حاصل ہوں گے اور جہاں ایک مزدور کو بھی ایک با عزت زندگی گزارنے کا حق مل سکےگا۔ 
آج جو لوگ الحاق پاکستان کی بجائے خودمختار کشمیر کی بات کرتے ہیں وہ پاکستانی حکام کے منافقانہ اور متعصبانہ نظام سے تنگ آ چکے ہیں۔ انہیں جب سندھ ، بلوچستان اور پشتونوں  کے حالات نظر آتے ہیں تو وہ بھی  کشمیر کے پاکستان سے الحاق  سے  کچھ زیادہ پر امید نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں قوم پرست  اپنی قومی آزادی اور ترقی پسندانہ نظریات کی بات پہلے سے زیادہ کھل کر کر رہے ہیں۔

Saturday 28 September 2019

اقوام متحدہ، تقریریں اور ہمارے اعمال



اقوام متحدہ، تقریریں اور ہمارے اعمال


کل جنرل اسمبلی میں ھونے والی تقریب میں  خانصاحب کی تقریر بڑی اچھی اور مدلل تھی ۔ خانصاحب نے اسلام کا مقدمہ بھی لڑا، پاکستان کو کیسے دہشت گردی کے گرداب میں جھونکا گیا اس پر مفصل بات کی اور ھندوستان جو اسوقت دنیا کی سب سے بڑی جمھوریت کے راگ الاپ رہا ھے  کا مکروہ چہرہ بھی دنیا کے سامنے پیش کیا۔ 
ایک کشمیری ھونے کے ناطے سے میرا فوکس کشمیر ایشو پر ہی ھو گا،  دیکھنا یہ ھے کہ اس سے  پاکستان اور  مسئلہ کشمیر کو کتنا فایدہ ھوسکتا ھے۔ کیا اس تقریر سے دنیا اب پاکستان کو دہشت گردی سے منصوب کرنا چھوڑ دے گی؟، یا مسئلہ کشمیر حل ھو جائے گا؟   
خانصاحب کے مطابق ھندوستان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک اور پلوامہ ھو بھی ھو سکتا ھے۔ اب یہاں پر تھوڑا سا توقف فرمائیں اور نیوٹرل ھو کر یہ سوچیں!  کہ کشمیر میں جہادی گروپس کو پاکستان کی ہر طرح کی حمایت حاصل تھی، اگر پلوامہ طرز کا ایک اور حملہ ھوتا ھے تو دنیا ترکی، ایران یا چین پر شک نہیں کرے گی بلکہ اس کے تانے بانے وہیں ملائے جائیں گے جہاں سے پہلے نام نہاد مجاھدین کو مدد ملتی رہی ھے۔ اب دنیا خانصاحب کی بات پر کیسے یقین کر لے کہ پاکستان  اب اچھا بچہ بن گیا ھے اور اسکا کسی قسم کی جہادی گروپس سے تعلق نہیں ھے۔ 
جب خانصاحب کشمیر میں ھونے والے ہیومین رائٹس وائلیشن اور حق خود اختیاری  کی بات کر رہے تھے  تو دنیا اس شش و پنج میں مبتلا تھی کہ ھندوستان تو کشمیر میں ہیومین رائٹس کی وائلیشن کر رہا ھے مگر  آزاد کشمیر میں بھی اپنے حق رائے دہی کو مانتے ہوئے خودمختار کشمیر کے حامی اور نعرے مارنے والوں کو غائب یا گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا جاتا ھے  تو پھر پاکستان جس حق خود ارادیت اور ہیومین رائٹس وائلیشن  کی بات کرتا ھے وہ کس بلا کا نام ھے؟ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا اپنی عقل سے کام لیتی ہے  نہ کہ ادھار لی گئ عقل سے۔  جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ازاد کشمیر کے حالات سے دنیا واقف نہیں ھے تو وہ لوگ ابھی تک کنویں سے باھر ہی نہیں نکل سکے، انہیں اگر کنویں سے باھر نکال بھی دیا جائے تو گھبرا کر واپس کنویں میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ 
مسئلہ کشمیر گزشتہ 71 سال سے جاری ھے لیکن۔ حالیہ سچویشن آرٹیکل 370 اور 35a کے ہٹائے جانے کے بعد پیدا ھوئ ھے جو کہ کرفیو کی صورت میں اب بھی قائم ھے۔ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے بھارت نے کشمیر کو باقاعدہ طور پر اپنا حصہ بنا لیا ھے جو کشمیریوں کو کسی بھی صورت میں نامنظور ھے لیکن جنرل اسمبلی میں خانصاحب نے  370 کے ہٹائے جانے اور کشمیریوں پر شب خون مارنے کی بھر پور مذمت کرنے کی بجائے صرف کرفیو سے پیدا ھونے والی مشکلات ، اور کرفیو کے ہٹائے جانے پر کشمیریوں کا رد عمل سے آگاہ کیا ھے۔ حالانکہ ھونا تو یہ چاہئے تھا کہ آرٹیکل 370 کو بنیاد بنا کر ھندوستان کے اس عمل پر ھندوستان کو خوب اڑے ھاتھوں لیا جاتا اور دنیا کو باور کرایا جاتا کہ بھارت کا یہ عمل ناقابل قبول ہے۔۔مگر کیسے۔۔۔ دنیا یہ بھی جانتی ھے کہ بھارت نے جو کام آج کیا ھے وہی کام پاکستان نے معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کے ساتھ 1949 میں کر لیا تھا۔ 
آپ دنیا میں جتنا مرضی شور مچاتے رہیں، لمبی لمبی اور جزباتی تقریریں کرتے رہیں لیکن دنیا آپکو آپکے اعمال کی وجہ سے پہنچانے گی۔ قول و فعل میں اگر تضاد نظر آئے تو دنیا آپکی باتوں کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لے گی۔ ہمارے وکیل عرف بڑے بھای جان صاحب کے پاس مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ پاکستان ہی کی وکالت سے یہ مسئلہ حل ھو گا اور پچھلے 71 سالوں سے یہی کرتے آئے ہیں ، لیکن دنیا ھے کہ ہمارے وکیل کو خاطر ہی میں نہیں لاتی،  نالائق سے نالائق انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ھے کہ اگر آپکا وکیل کمزور ھو تو تبدیل کر کے کوئ اور وکیل کیا جا سکتا ھے یا مقدمہ خود بھی لڑا جا سکتا ھے۔ اگر ہمیں واقعی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وکیل ہی کی ضرورت ہے تو پھر پہلے ایسے وکیل سے جان چھڑانی پڑے گی جو آپکا مقدمہ اس شرط پر لڑ رہا ہے کہ جیتنے یا ہارنے کی صورت میں آپکی  جائداد کے مالک وکیل صاحب ہی ھوں گے۔ اپکو کسی ایسے وکیل کی تلاش کرنا ھو گی جو نیک نیتی سے اپکا مقدمہ عوام کی خواہشات کے مطابق لڑے، وکیل ہی کرنا ھے تو پاکستان کی بجائے ترکی کو وکیل کر لینے میں کیا حرج ھے۔۔۔۔ لیکن میں سمجھتا ھوں کہ ہمیں  خود اپنے آپ کو اس قابل بنانا ھو گا کہ ہم اپنا مقدمہ خود پیش کر سکیں۔  دنیا کی کوئ بھی عدالت مظلوم کے بڑے بھائی یا مامے کی بجائے مظلوم کی بات کو زیادہ توجہ سے سنے گی۔۔تمام حربے اب استعمال کیے جا چکے ہیں،  مسئلہ کشمیر کے  لیے جب تک حکومت آزاد کشمیر کو مکمل خود مختار ریاست تسلیم کر کے اسے اپنا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کرنے نہیں دیا جاتا مسئلہ کشمیر اسی طرح لٹکا رہے گا۔   اگر اسکے انقلابی حکومت بھی قائم کرنا پڑ جائے تو میں یہ سمجھتا ھوں کہ ہمیں اس کے لیے کسی بھی پس و پیش سے کام  نہیں لینا چاہئے۔ 
توقیر لون۔

Tuesday 17 September 2019

پہولے بادشاہ



پہولے بادشاہ


ہم میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جن کے پاس دلیل جب ختم ھو جاتی ھے تو گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں یا پھر اپنے مخالف کے خلاف بغیر سیاق و سباق کے باتیں پھیلا کر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غداری کے فتوے جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا مقصد سچائ کو جاننا نہیں ھوتا بلکہ بھولے پن میں وہ ان قوتوں کا ساتھ دے رہے ھوتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے قابض رہنا چاہتیں ہیں۔  ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ھے۔
آج ہم فاطمہ جناح کا نام نہایت ادب و احترام سے لیتے ہیں ان کی عزت و تکریم کرتے ہیں لیکن ماضی میں اگر دیکھا جائے تو ہم نے ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا وہ کوئ اتنا لائق داد و  تحسین نہیں تھا۔ فاطمہ جناح نے جب  اس دور کے حکمرانوں کو آئینہ دکھایا تو اسوقت کے حکمران نے انکےخلاف محاذ کھڑا کر دیا ۔ انکے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش شروع کر دی گئ  ان پر غداری کے فتوے دیے گئے بلکہ یہاں تک کیا گیا کہ ایک کتیا کے گلے میں لالٹین جو کہ ان کا انتخابی نشان تھا ڈال کر سڑکوں پر گھمایا گیا۔ ہمیں تو اپنی تاریخ پڑھنے کا شاید حوصلہ بھی نہیں ھے کیونکہ  ہمیں یہ سوچنے پر ندامت محسوس ہوتی ہے کہ آخر  وہ کون لوگ تھے جو اسوقت کے حاکم  کا ساتھ دے کر اس گھناؤنی سازش میں شریک جرم تھے اور  وہ کیسے لوگ ھوئے ھوں گے جو اس سارے واقعے پر تماش بین بنے رہے؟ یہ سازشی ٹولہ اور سب تماش بین  بھی تو پاکستان کے ہی رہنے والے تھے ، لیکن۔۔۔۔  خاموش رہے۔ 
ہمیں یہ سوچ کر زیادہ تعجب شاید نہ ھو کیونکہ ہمارا
ماضی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ھے،  اگر واقعہ کربلا میں  معرکہ حق و باطل کو  دیکھا جائے تو ہمیں وہ مسلمان بھی دکھائ دیں گے جو اسوقت یزیر کی صفوں میں تھے اور امام عالی مقام  کے خلاف فتوے دینے میں مصروف عمل تھے۔
سوچنے کا مقام ہے کہ اگر آج اپکو اپنے معاشرے میں تعصب، لوگوں کے حقوق کا غصب ھونا، معاشی استحصال، بلا وجہ غداری کے فتوے، اختلاف رائے پر منفی پروپیگنڈے، کسی کو اپنی رائے رکھنے کا حق نہ دینا۔ قوموں کو اپنی طاقت سے غلام بنائے رکھنا، انکے سیاہ و سفید کا مالک بن جانا، منافقت، جھوٹ اور اقربا پروری نظر نہیں آ رہی ھے یا آپ اسکے خلاف بات کرنے سے کتراتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ  آپ بھی کہیں ان بھولے بادشاہوں میں سے تو نہیں ہیں جن کے بارے میں آج ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ!  وہ کیسے لوگ ہوئے ھوں گے جو امام عالی مقام کی بجائے یزید کی صفوں میں شامل تھے۔۔سوچئے گاضرور۔

آخر میں یہ کہوں گا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ میری تحریر پاک فوج کے خلاف ہیں تو انہیں یہ معلوم ھو جانا چاہئے کہ میرا حرف تنقید اور اختلاف ان اقتدار پسند طاقتوں سے ھے جو آئین پاکستان کی پامالی کرتے ھوئے اقتدار پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ماضی میں اور اب بھی  براجمان ہیں۔ میرے والد اور والدہ دونوں کی طرف سے پاک فوج اور فضائیہ میں اعلی خدمات انجام دیتے رہے ہیں جن پر مجھے اب بھی فخر ھے اور انکے اعلیٰ اقدار اور اخلاق، م لیے ہمیشہ مشعل راہ رہیں گے۔ جو لوگ ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں انکے لیے پیغام ہے کہ تنقید کا جواب دلیل اور اعلی ظرفی سے دیا جاتا ھے نہ کہ منفی پروپیگنڈے کرنے سے۔

Sunday 8 September 2019

دکھنی رگ


آزاد کی فر آزاد کرو

ہک عرض کراں جے تساں سن لو تے
 ساڑھی آزادی نا پہار کیاں چایا سی
کیاں بنڈیاں پستولاں جواناں وچ
 مروایا  پراہواں تے شیر جواناں کی
کدوں تھوں سننے آئے آں
چار جنگاں  کشمیر  اپر لڑیاں
 احساناں نی پنڈ  مونڈھے اپر سٹی
آزادی نا خواب تکایا نے
تس ساڑھے پیارے پہائ جان او
تساں کی پہائ جان کس بنایا سی 
انڈیا اساں کی کھائ جاسی
 ہر پل بڑا ڈرایا نے
تساں شہ رگ شہہ رگ کھیڈنے رہے
انھاں اٹوٹ انگ اخوایا اے
اساں  کس کی سچا اخاں ہن
اس کری تے جو دکھایا اے
تساں چپ چپیتے کیاں ھوئ گئےھو
 پہائ جی کجھ تہ فرماؤ
جے   پتہ چلی گیا ہن تساں کی
کہ پچھلیاں گلاں خام خیالی سن
تے ہن وی ویلہ اجے بیتیا نہیں
تساں بئوں نہیں تہ ہک کم کرو
کجھ کرم کرو نکے پہائ پر
اسکی انسان ہن سمجھی کہینو
اسنا وی اک اپنا کہار ھوئے
جتھے اپنا نظام چلائ کہینے
فیر اپنے دوئے جسے کی
دنیا کی باور کران استے
اک تحریک چلائ کہینے
جتھے تس وی اسنی تائید کرو
سب ملکاں نے ایواناں وچ
 کشمیر نی رل مل گل کرو
اے کہہ آدھا گھنٹا ہفتے وچ
کشمیر نا سوگ منانے او
ساڑھے خواباں کی دفنانے او
کجھ کم کرو کجھ کرم کرو
یا اینج کرو جے کری سکو
جے نکا ہتھوں نکل گیا
تساں ابا جی توں پچھی کے 
نکے کی ہن عاق کرو۔
آزاد کرو آزاد کرو
آزاد کی فر آزاد کرو

                 توقیر لون

Friday 6 September 2019



یزید ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک نظام کا نام ھے


محرم الحرام کا مہینہ ہے اور یہ مہینہ ہمیں جناب عالی
مقام حضرت امام حسین کے  واقعہ کربلا جو کہ اصل میں معرکہ حق و باطل تھا کی  یاد دلآتا ہے۔ حق و باطل کی یہ جنگ  ازل سے ابد تک ہمیشہ جاری رہے گی ۔   سرخرو ھونا ھے اگر تو زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں امام  حسین  کے نقش پا کی پیروی کرنی چاہئے کیونکہ یہی حق والوں کا شیوہ رہا ھے۔
واقعہ کربلا کا بغور مطالعہ کیا جائے تو در حقیقت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کسی ایک فرد کے خلاف جہاد نہیں کیا بلکہ یزیدکے اس نظام کے خلاف جہاد کیا تھا  جو کہ اسلامی نظام کے برخلاف تھا حسین حق پر تھے اور یزید باطل پر تھا ۔ آج اگر اس واقعے کو دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ھو گا کہ وہ یزیدی نظام اور سوچ آج بھی ھمارے معاشرے میں اور ہماری ریاست میں موجود ھے، جس کے ھاتھ تھوڑی بہت طاقت آ جائے وہ یزیدیت پر اتر آتا ہے۔
ہمیں تو حسین کے نقش قدم پر چلنا ھے اور چلتے رہیں گے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ھو  گا کہ آج کے یزید کون ہیں جب تک ہم یہ معلوم نہیں کر سکتے ہمارے لیے امام حسین کے راستے ، حق کے راستے پر چلنا دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ھو گا۔ لیکن یہ معلوم کرنا اتنا مشکل بھی نہیں، بات سادہ سی ھے کہ وہ کون سے عناصر ہیں  جو لوگوں کی زبان بندی  کر رہے ھیں، جو لوگوں کو بات بات پر غداری   کے فتوے جاری کر رہے ہیں۔  جو لوگوں کی بات سننے کی بجائے انکا گلا گھونٹ رہےہیں اور جو لوگوں کی آوازوں کو انکے جسم سمیت غائب کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ھو گا کہ یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
آج کے یزیدی نظام  کو معلوم ہے کہ جن آوازوں کو وہ دبا رہا ھے بہت کم ہیں مگر اسکے یزیدی نظام کے لیے ایک آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ھو سکتی ہیں۔ اس یزیدی نظام کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ھر ممکن کوشش کررہا کہ ھے کہ  اصل حقائق شعور کو عوام تک ہی نہ پہنچنے دیا جائے تا کہ یہ جو چاہیں کرتے رہیں۔
آئے دن جن آوازوں کو دبایا جا رہا ہے یا لوگوں کو غائب کیا جا رہا ہے  ان کو اگر دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ھو گا کہ یہ کوئ بس ڈرائیور، کنڈکٹر، ریڑھی بان، خوانچہ  فروش، یا پھر حلوائی ، حجام یا موچی وغیرہ   نہیں بلکہ معاشرے کے اعلی تعلیم یافتہ اور ایسے باشعور افراد ہیں جو اپنے  لیےنہیں بلکہ اپنے اہل علاقہ اور خطے کے حقوق کی بات کرتے ہیں، جو اس ملک میں غلط اور متعصب نظام کے خلاف بات کرتے ہیں اور حق کی بات کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے افکار و خیالات سے  عوام کو شعور دے سکتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کی جبری گمشدگیاں اور غائب ھو جانا ایک عام سی بات ھو چکی ھے۔ اس ملک کی تاریخ میں کئ دانشوروں،  شاعروں اور حق گو شخصیات پر غداری کے فتوے لگائے گئے انہیں پاںند سلاسل کیا گیا اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ھے۔ حال  ہی میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر انعام بھٹی کا غائب کیا جانا اور اسپر ریاستی اداروں کا چوں تک نہ کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ھے جو کہ یزیدی نظام کا منہ بولتا ثبوت ھے۔ 
یہ ملک تو اسلام کے نام پر لیا گیا تھا مگر بد قسمتی سے یہاں جس نظام کا زور رہا ھے وہ حسینیت کے بر خلاف رہا ھے۔ لوگوں کو انکے  اختلاف رائے پر یا تنقید پر زبان بندی یا غائب کر دینا کہاں کا انصاف ھے۔ ریاست میں  عدالتیں موجود ہیں لیکن پھر بھی کچھ یزیدیت کے پیروکار اپنی مخالف آوازوں سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ انہیں  قانونی گرفت میں لانے کی بجائے غائب کر دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ یزیدی نظام اس بات سے نالاں ہے کہ اس ملک کا یہ اعلی تعلیم یافتہ دانشور طبقہ اس ملک  کے بس ڈرائیور، کنڈکٹر، حجام، موچی، مستری، اور مزدور پر کہیں اس یزیدی نظام کی اصلیت کا پول نہ کھول دے۔ 
 اگر ان لوگوں پر اتنا ہی سنگین الزام ھے تو ان پر عدالتوں میں مقدمات کیوں نہیں کیے جاتے،  انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، ان لوگوں کو بھی اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع دیا جائے اور اگر ان پر الزام  ثابت ھوتا ھے تو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ یہ یزیدی نظام کے پیروکار صرف اور صرف یزیدی عدالتوں کے قائل ہیں یہاں ملزم کو اپنی صفائ میں بولنے نہیں دیا جاتا ۔۔۔ بس غائب کر دیا جاتا ھے۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ھے
اسلام زندہ ھوتا ھے ہر کربلا کے بعد

Thursday 22 August 2019


محصورین کی  عید


کیا عید منائی لوگوں نے

جہاں گھر بازار مقفل ہیں

جہاں شہر ھوئے ویرانے کی نظر

جہاں مسجد ممبر سب بند ہیں

بس غاصب فوج کا پہرا ھے

ھے حکم کوئ نہ نکلے باھر 

ھر بیمار  اب سوچتا ھے 

کیسے  دوا پہنچے گی انہیں

جہاں ھر دکاں مقفل ھے

ھر سو کرفیو کا ڈیرا ھے

بچوں کی بلکتی  آوازیں 

جو دیکھنے سے اب قاصر ہیں

کیا ماں انہیں اب یہ سمجھائے

کیوں صبح کا رنگ اب کالا ھے

دہلی سے چلی اک لڑکی اب

 رخت سفر یوں باندھتی ھے

 توڑ کے پہرے اب، سب وہ

دل ہی دل میں یہ ٹھانتی ھے

شوگر کے مرض میں والد کو 

اک انسولین پہنچانے پر

کیا گزری اس پہ، وہ جانتی ھے

کشمیر تیر ی قسمت ہے  ایسی 

تجھے اپنوں، غیروں نے گھیرا 

ترے نام پہ جاں جو وار گئے

انکی بیواؤں، یتیموں کا

ان بے وارث ضعیفوں کا

ظلم کی کالی راتوں میں 

جب ٹپ ٹپ آنسو گرتا ہے

ان معصوموں کے نام پہ جب

کچھ کھیل تماشے والے لوگ

 ترے نام کی ڈگڈگی باندھتے ہیں 

یوں انکا چولہا جلتا ھے

توقیر لون

Thursday 30 May 2019

قصہ کل اور جزو کا





قصہ کل اور جزو کا

تحریر توقیر لون

پاکستان کا معرض وجود میں آنا ھندوستان میں افغانوں، بلوچوں، سندھیوں، پنجابی مسلمانوں اور بنگالی مسلمانوں کے ہی مرہون منت تھا ۔ اگر یہ قومیں نہ ہوتیں تو پاکستان کا سوال ہی پیدا نہ ھوتا۔ کیا کسی قوم یا قبیلہ کو اپنی شناخت جو ھزاروں سالوں پر محیط ہو کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف 72 سال پرانی تاریخ کو ہی اپنی تاریخ مان لینا چاہئے؟۔۔ کیا اس سے کسی ایک خاص قوم و قبیلہ کی تاریخ مسخ نہیں ھو گی؟ یا ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ قوم و قبیلے اپنی  کئ ھزار سالہ تاریخ کو یاد رکھنے کی بجائے صرف اور صرف پھانسی، کوڑے اور مارشل لاء کی تاریخ کو ہی یاد رکھیں؟۔۔  یہ ایسے سوالات ہیں جو ہر ذی شعور انسان کے تحت الشعور میں موجود تو ہیں مگر انہیں زبان پر کوئ نہیں لاتا  کہ مبادا وہ غداری کے فتووں کی زد میں آ جائیں۔ 
برطانیہ میں رہتے ہوئے اگر  ہم برٹش کشمیری، برٹش پاکستانی، برٹش بنگالی،سکاٹش، آئرش وغیرہ ھو سکتے ہیں اور اس سے برطانوی حکومت کو کوئ سیکیورٹی خطرات نہیں لاحق ھوتے تو پاکستان میں کیسے اس بات سے سیکیورٹی خطرات پیدا ہو سکتے ہیں؟۔  
پاکستان میں رہنے والی تمام قوموں کو اگر پاکستان کا کل  مان لیا جائے تو اس لحاظ سے پاکستان اسکا جزو کہلائے گا۔۔یعنی جزو کا وقوع پزیر ھونا کل کے وجود سے ہے۔  کل کبھی بھی جزو سے علیحدہ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی جزو کبھی کل سے۔۔ اس کل کی  نسبت جزو  سے قائم  ہے یعنی یہ قومیں جغرافیائی لحاظ سے پاکستانی تو ہیں مگر انکی اپنی ایک جداگانہ حیثیت بھی ھے جس کی وجہ سے یہ جزو معرض وجود میں آیا اس سے تو کوئ بھی  انکار نہیں کر سکتا۔۔
قیام پاکستان میں بنگالیوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ھے۔ لیکن بنگالیوں کو تو ہم نے ہمیشہ تیسرے درجے کا شہری مانا، انہیں حقیر جانا اور انکا ہمیشہ تمسخر اڑایا لیکن نتیجہ آپ کے سامنے ھے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان بنانے میں۔ بنگالیوں نے ایک کلیدی کردار ادا کیا  تھا۔ بنگال اس کل کا حصہ تھا جسے ہم نے اپنی کوتاہ نظری،  ظالمانہ رویوں، حق تلفیوں اور انکے تشخص کو پامال کرنے  کی وجہ سے کھو دیا۔۔ 
آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ گلدستے میں اگر صرف ایک رنگ کے پھول بھر دیے جائیں تو اسکی خوبصورتی شاید اتنی عیاں نہ ھو کہ جتنی مختلف رنگوں کے پھولوں اور انکی خوشبوؤں  سے ھو سکتی ھے۔ یہ قومیں اور قبیلے پاکستانی تو ہیں ھی مگر ان کے تشخص کو پامال نہ کیا جائے، ان سے  انکی تاریخ اور شناخت نہ چھینی جائے

Monday 18 March 2019

چین کا سورج کو سمیٹ کر زمین پر لانے کا منصوبہ

چائنہ کا خلا سے شمسی توانائی کو زمین پر لانے کا منصوبہ


دنیا میں ایجادات کا سلسلہ تخلیق آدم سے لے کر آج تک اور تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ آ ج  ہم جس ترقی یافتہ دور میں رہ رہے ہیں اسمیں جتنی بھی ایجادات ممکن ھوئ ہیں ان میں  الیکٹریسٹی کا ایک اہم کردار رہا ھے اور آئندہ بھی رہے گا۔ بجلی یعنی الیکٹریسٹی کی ایجاد کو سائنسی میدان میں ایک معجزہ کہا جائے تو یہ بے جا نہ ھو گا۔ اس معجزے سے سائنسی میدان میں ان گنت معجزات نے جنم لیا جو انسانی عقل کو ماوف اور آنکھوں کو خیرا کر دینے والے ہیں۔
بجلی کے حصول کے لیے مختلف طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں جنمیں ہائڈرل پاور، نیو کلیئر پاور، ایندھن،  ونڈ   ملز،  اور شمسی توانائی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ماہرین اب بجلی پیدا کرنے کےان  زرائع کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں جو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو کم کرے بلکہ اسکی پیداواری لاگت بھی کم سے کم ھو۔ اس لحاظ سے شمسی  توانائی ایک  بہترین ذریعہ ھو سکتی ھے جو دنیا میں کافی مقبول ھو چکی ھے۔
اگر ہم شمسی توانائی سے بجلی حاصل کر کے اس سے اپنے
 روزمرہ کے کام سر انجام دے سکتے ہیں تو اس شمسی توانائی کو بجائے زمین سے حاصل کرنے کے ہم سورج کے مزید قریب یعنی  خلا کا رخ بھی کر سکتے ہیں تا کہ ہمیں دن رات اور  ہر قسم کے موسمی تغیرات میں بھی اس شمسی توانائی کا حصول ممکن ھو سکے اور ہم اس سے استفادہ کرتے رہیں۔

شمسی توانائی کو خلاء میں حاصل کرنے اور اس تمام منصوبے کوپایاء تکمیل تک پہنچانے کے لیے چین نے سولر پاور سٹیشن کو خلاء میں بھیجنےکے مشن پر کام کرنا شروع کر دیا ھے۔   چائنہ کے خلائی ماہرین کی ٹیم جو اس منصوبے پر کام کر رہی ھے کا کہنا ھے کہ وہ 2021 سے 2025  کے درمیان  خلاء میں سولر پاور سٹیشن بھجنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ یہ سولر سٹیشن زمین کے مدار سے 36000 کلو میٹر یعنی 22369 میل کی دوری پر ھو گا جو دن رات اور غیر مناسب موسمی حالات میں بھی ہر وقت سورج سے روشنی حاصل کر سکے گااور یوں چین دنیا کا واحد ملک کہلائے گا جو خلاء سے شمسی توانائی حاصل کر کے اسے زمین پر اپنے تصرف میں لا سکے گا۔اگر یہ پروجیکٹ کامیاب ھو جاتا ھے تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا پروجیکٹ ھو گا جو خلاء سے حاصل ھونے والی  لا  متناہی
شمسی توانائی کو ری نیو ایبل انرجی میں ڈھال کر اسے زمین پر استعمال کےقابل بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
لیکن سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ خلا سے شمسی توانائی کو کیسے زمین پر لا کر کارآمد بنایا جا سکتا ھے۔  اس سوال کے جواب میں چینی ماہرین کا کہنا ھے کہ وہ خلاء سے شمسی توانائی کو لیزر ٹیکنالوجی یا مائکرو ویو ٹیکنالوجی کے زریعے زمین پر بھیج کر اسے کارآمد اور قابل تصرف بناسکتے ہیں۔ خلاء سے شمسی توانائی حاصل کرنے سے متعلق اگر مزید معلومات حاصل کی جائیں تو ہمیں معلوم ھوگا کہ چین شاید وہ پہلا ملک نہیں ہے جس نے خلاء سے شمسی توانائی کو زمین پر استعمال کرنے کا تصور پیش کیا ھو۔ 1950 میں امریکی سانسدانوں نے بھی شمسی توانائی کو خلاء سے کنٹرول کر کے زمین پر استعمال کرنے کا تصور پیش کیا تھا لیکن اس پر بہت کم کام کیا جا سکا۔  ناسا کے ایک سابق ریسرچر  جان مینکنز نے  ھوائ جزیرہ میں مایوی کے مقام پر موجود ایک پہاڑ کی چوٹی سے  شمسی توانائی کو کنٹرول کر کے ایک بیم کے زریعے 92 کلو میٹر دور ایک مقام پر پہنچانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا، وائرڈ نامی ایک جریدے نے اس تجربے سے متعلق لکھا کہ جان مینکنز تقریباً 20 واٹ تک کی انرجی مطلوبہ مقام تک پہنچانے میں کامیاب ھو سکا جس سے صرف ایک بلب ہی روشن کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ جریدہ اس بات کا اعتراف بھی کرتا ھے کہ اگر  اس تجربہ میں ایک خطیر رقم صرف کی جائے اور سولر پینلز کی تعداد میں۔ اضافہ کرنے  سے خاطرخواہ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
اگر چینی سائنسدان اور ریسرچرز خلاء سے شمسی توانائی کو لیزر یا مائیکرو ویو کےزریعے زمین پر لانے میں کامیاب ھو جاتے ہیں تو اس میں کو شک نہیں کہ وہ قرہء ارض پر موجود بجلی پیدا کرنے کے زرائع کو اس ری نیوایبل انرجی سے تبدیل کر سکتے ہیں اور لا محالہ یہ انکی بہت بڑی کامیابی تصور کی جائے گی۔  لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ بات اتنی آسان بھی نہیں ، اس تجربے میں بہت زیادہ پیچیدگیاں ہیں جنکے لیے ایک خطیر رقم درکار ہے اور اسکے ساتھ ساتھ زمین پر ایک ایسی بہت بڑی فیسیلیٹی بھی درکار ھو گی جو خلاء میں حاصل کی گئی توانائ کو وصول کرنے اور اسے رینیوایبل انرجی میں تبدیل کر نے کا کام انجام دے سکے۔
 




Wednesday 13 March 2019

گڈ بائے مسٹر چپس

گڈ بائے مسٹر چپس


اس سے پہلے کہ مسٹر چپس کے ناول کی جگہ سیرت رسول صلعم سے متعلق انگریزی مضامین انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں شامل کیے جانے پر بات کی جائے، ایک آئیڈیل  تعلیمی نظام کو سمجھنا نہایت ضروری ھے۔  
تعلیمی نظام کا ابتدائ مقصد انسان کو شعور دینا اور اسے اس قابل بنانا ھے کہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت سے  ایک کامیاب زندگی گزار سکے۔ دنیا کی ترقی یافتہ عوام کو  یا  برطانوی تعلیمی نظام جس میں ھم خود رہ رہے ہی  اسی کو دیکھ لیں۔یہ ایک بچے کی زہنی نشونما کرنے کے ساتھ ساتھ اسے  میدان  عمل کے لیے بھی تیار کرتا ھے۔  یہ تعلیمی نظام اس بات کو یقینی بنانے کی حتی الوسع کوشش کرتا ھے معاشرے میں رہنے کے اعلیٰ اقدار بچے کو سکھائے جائیں تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ھو کر ایک مثالی شہری کے طور ا پنا کردار ادا کر سکے۔ ایک واقعہ سے شاید یہ بات زیادہ واضح ھو جائے، میری بیٹی جسے پاکستان میں۔ ایک سال سکول میں پڑ ھنے کا اتفاق ھوا،نے ایکدن مجھے کہا کہ سکول میں ایک بچی اسے تنگ کرتی ھے اور تھپڑ بھی مارا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تم بھی اسے تھپڑ مار دیتی، تو اسنے کہا کہ 
Papa، two wrongs don't make a  right ۔ 
اب اگر دیکھا جائے تو بچی نے یہ بات برطانیہ کے جس نظام تعلیم سے سیکھی تھی یہ اس کا کمال تھاکہ وہ اس پر عمل  پیرا بھی تھی۔   
 ہم اگر بات کریں  پاکستان بشمول آزاد کشمیر کے نظام تعلیم کی تو وہ یورپی نظام تعلیم سے کوسوں دور ہے۔ ہمارے ہاں کے نظام تعلیم میں بچے پر کتابیں لاد دی جاتی ہیں اسے رٹے لگوا لگوا کر امتحان پاس کروائے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسی تعلیم کا عملی زندگی سے کوئ لینا دینا نہیں ھوتا۔ 
بات چلی تھی مسٹر چپس کی بجائے سیرت رسول صلعم کو انٹرمیڈیٹ کے انگریزی مضامین میں شامل کرنے کی۔ ہمارا سب سےبڑا المیہ ہے کہ ہم نے سیرت مصطفٰی صلعم کو صرف رٹا مار کر یاد کیا ھے تاکہ اگلی جماعت میں داخل ہو سکیں لیکن افسوس کہ ہمارا عملی زندگی میں اس سے
کچھ واسطہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جو لوگ اردو زبان میں سیرت رسول صلعم کو پڑھ کر بھی سمجھ نہ سکیں اور عملی طور پر اس سے میلوں دور ھوں کیا وہ لوگ انگلش میں سیرت مصطفٰی صلعم کو پڑھ کر اسے سمجھ کر اپنی زندگیاں اسکے مطابق ڈھال سکیں گے؟. یا پھر رٹا مار کر صرف امتحان پاس کرنے پر ہی زور ھو گا؟.
 مسٹر چپس اگر  نصاب میں شامل ھے تو اسکی صرف ایک ہی وجہ ہے، وہ یہ کہ انگریزی زبان کا مروجہ نظام تعلیم  میں شامل ھونا ہے۔ ھمارے نظام تعلیم میں انگریزی زبان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ کوئ بھی زبان سیکھنے اور اس ہر دسترس حاصل کرنے کے لیے اسکے صحیح صرف و نحو، شاعری، اور ادبی مشاہیر سے آشنائی لازمی ھوتی ھے۔ کسی زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے اس زبان کے محاورات سے  شناسائی اور ان پر عبور ھونا چاہئے اور یہ اسوقت ہی ممکن ہے جب آپ اسکے ادب کو بھی باقاعدگی سے پڑہیں گے۔ بالکل ویسے ہی  جیسے ہم اردو سیکھتے ہیں تو ہم اردو میں لکھے گئے شہرہ آفاق ناول اور ادبی پاروں کو بھی پڑھتے ہیں تا کہ زبان دانی پر عبور ھو سکے۔۔
اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسٹر چپس کی بجائے سیرت رسول صلعم کو نصاب میں شامل کیا جائے تا کہ لوگ اس مستفید ھوں  تو بصد احترام کیا جائے لیکن ایک غیر زبان میں ہی کیوں ؟ کیوں نہ سیرت رسول صلعم کے مضامین کو انگلش کی بجائے عربی مضامین کے ساتھ شامل کیا جائے۔ کیو نکہ عربی زبان ہی اسلام کا اصل منبع ھے اور ایک مسلمان کو عربی پر عبور ھونا چاہئے تا کہ وہ حدیث، قرآن اور سیرت رسول صلعم کا صحیح طور پر مطالعہ کر سکے اور اسکی عملی زندگی میں بھی قرآن و سنت کی
جھلک دیکھنے کو ملے۔ ۔
قارئین میری اس تحریر سے اختلاف رائے  کا پورا حق رکھتے ہیں۔ شکریہ 

Tuesday 12 March 2019

میجر جنرل آصف غفور کی نصیحت

 جنرل آصف غفور کی نصیحت
Pic.courtesy news18


 کچھ مہینے پہلے ڈی جی ائ ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا پاکستانی میڈیا برادری کو مخاطب کرتے ھوئے یہ بیان سامنے آیا کہ  " آپ ملک سے متعلق چھ ماہ کے لیے مثبت خبریں شئیرکریں " انکا یہ بات کہنے کا مقصد اسلیے تھا کہ اگر چھ ماہ تک  ملکی حالات حاضرہ سے متعلق مثبت خبریں شئیر کرنے سے ملک کے اندرونی خلفشار اور ہیجانی کیفیت میں  کمی آئے گی اور بیرون ملک پاکستان کا امیج اچھا ھونے سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ھو سکتا ھے۔ 

جنرل آصف غفور کی یہ نصیحت صرف میڈیا ھاوسز کے لیے نہیں تھی بلک سوشل میڈیا پر ایکٹو ان فیک اکاؤنٹس چلانے والوں کے لیے بھیذ تھی جو اسوقت ملک میں بدامنی کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔  اب رہی بات مثبت خبروں کی تو سانحہ ساہیوال تو مثبت خبر ھونے سے رہا۔ملک میں پنپنے والی  بےضابطگیاں اور نت نئے سکینڈلز کی پردہ پوشی کرنا،  ایسے عناصر کی معاونت کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کہلایا جا سکتا۔ 

امثبت خبروں کی دوڑ میں کہ جہاں انڈین پائلیٹ کو امن  جیسچر کے طور پر رہا کرنے کی خبریں ھر میڈیا چینل پر سر گرم رہیں اور پاکستان نے عالمی برادری سے خوب داد وتحسین وصول کی،  وہاں ہی کنٹرول لائن پر انڈین گولہ باری سے مرنے والے لوگوں کی خبریں ایک منفی یا غیر مثبت خبر کے زمرے میں شامل ھو نے لگیں۔۔ کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ اور گولہ باری سے جانی و مالی نقصان کنٹرول لائن کی دونوں جانب ھو رہا ھے اور اسکا مسلسل نشانہ کنٹرول لائن پر دونوں اطراف میں بسنے والے کشمیری بن رہے ہیں۔ لوگ اس گولہ  باری سے اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ وہ اپنے گھروں پر امن کا سفید پرچم لہرانے پر مجبور ھو گئے ہیں تاکہ دونوں افواج کو پیغام جا سکے کہ ہم بھی امن کے خواہاں ھیں۔ کنٹرول لائن پر انڈین افواج فائرنگ کریں یا  پاکستانی افواج جوابی کاروائی کریں، اگر اس منظر کو ڈرامائی انداز میں دیکھا جائے تو کشمیریوں کو جو رول ادا کرنے کو دیا گیا ہے وہ انایکسٹراز ، اداکاروں کا ھے جنھیں دوران جنگ  ہر حال میں مرنا ہی ھوتا ہے۔  کہانی آگے چلتی ہے اور یوں کہانی میں نئے کردار مرنے کے لیے شامل کر دئیے جاتے ہیں۔  

اس جنگی ماحول سے تنگ ا کر اھل علاقہ کی طرف سے دونوں اطراف میں بڑھتی ہوئ کشیدگی اور گولہ باری  کو روکنے کے لیے اوازیں بلند ھونا شروع ھو چکی ہیں جنکی گونج سوشل میڈیا تک سنائی دینے لگی ہے۔  لیکن افسوس کہ کنٹرول لائن پر کھیلی جانے والی خون کی ھولی نہ تو  مثبت خبر بن سکی  اور نہ ہی کنٹرول لائن پر لاشیں اٹھانے والے امن کے متلاشی کسی مثبت خبر کی زینت بن سکے۔ 

Sunday 17 February 2019

عالمی برادری کیا کرے؟ کشمیریوں سے ھمدردی یا انڈیا سے تعزیت




کچھ دنوں پہلے برطانیہ میں مسئلہ کشمیر کے حل۔کے لیےاور کشمیریوں میں بھارتی مظالم کے خلاف کشمیرکانفرنس منعقد کی گئ جسمیں آزاد کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی شخصیات  نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں   برطانوی پارلیمنٹرینز کے سامنے کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی قلعی کھول کر  برٹش پارلیمنٹیرینز سے کشمیریوں کے لیے ہمدردی کی راہ ہموار کی۔ یہ کانفرنس اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ بھارت کے دباؤ کے۔ باوجود برٹش گورنمنٹ نے اس کانفرنس کے انعقاد کے حق میں حمایت کی ۔
اس کانفرنس کا انعقاد یقیناً ایک بڑی کامیابی سمجھا جا رھا ھے کیونکہ اسکے نتیجے میں مظلوم کشمیریوں پر بھارتی جارحیت کو کھل کر سآمنے لایا گیا۔  ابھی نہتے کشمیریوں کے ساتھ بر طانوی پارلیمنٹیرینز کی ھمدردی شرع ہی ھوئ تھی کہ پلوامہ خود کش حملے کی خبر آگئ اور برطانوی پارلیمنٹرینز اس کشمکش میں مبتلا ھو گئے کہ انڈیا کے ساتھ اظہار تعزیت کریں کہ کشمیریوں سے ھمدردی۔ 
اس حملے کے رد عمل کے طور پر انتہا پسند ہندو تنظیموں کو کھلی چھٹی بھی مل گی کہ وہ جو چاہے کریں۔ نتیجتاً ان شر پسندوں نے جموں میں ۔مقیم مسلمانوں کی املاک کی توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ مسمانوں کو زدو کوب کیا گیا انکی گاڑیوں، دکانوں وغیرہ کو نظر آتش کیا گیا اور یہ سلسلہ   بھی تک جاری ہے۔  اسمیں۔ کوئ شک نہیں کہ انڈین فوج پر ھونے والے حملے انڈیا کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور مظالم کے نتیجے میں کشمیریوں کی طرف سے کیے جا رہے ہیں۔ ان حملوں میں زیادہ تر وہی نوجوان شامل ھوتے ہیں جو خود یا اپنے خاندان کو بھارتی افواج کے ظلم و جبر کا نشانہ بنتے دیکھتے ہیں۔کشمیری نوجوانوں کا بھارتی ظلم کے خلاف جہاد کو ایک درست عمل تو کہا جا سکتا ھے مگر جب اس جدو جہد میں  ایسی تنظیمیں جنھیں دنیا دہشت گرد تنظیمیں مانتی ہے شامل ھو جائیں یا انکا نام آنا شروع ھو جائے تو عالمی برادری کی نظر میں  اس حق  کی تحریک کے بارے میں کچھ شقوق و شبہات  جنم لینا شروع ھو جاتے ہیں  اور بھارت کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردی کو ھوا دینے کے الزامات پر   وک مسئلہ کشمیر میں عدم دلچسپی  لیتے ہوئے اسے ایک دہشت گرد تحریک سے جوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ 
قارئین میرے نقطئہ نظر سے اختلاف کرتے ھوئے یہاں اپنی رائے کا آزادانہ استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ شکریہ