Tuesday 18 May 2021

اسرائیل کے لیے بیت المقدس پر قبضہ کیوں ضروری ہے

بیت المقدس پر قبضہ کیوں ضروری ہے۔

 وڈ یو کے لیے  یہاں کلک کیجئے 

یروشلم  میں ایسی کیا خاص وجہ ہے کہ یہ یہودیوں اور عربوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اسکے لیے ہمیں اسکی تاریخی حیثیت کو جاننا ضروری ہے۔ یروشلم شہر آج سے تقریباً 7000 سال پہلے خانہ  بدوشوں نے بسایا تھا اور یوں یروشلم میں تاریخ انسانیت کی ابتدا ہوئی۔ 2400 قبل مسیح میں حضرت ابرہیم اور انکی قوم نے عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت کی اور یہاں ہی سکونت اختیار کی۔ جہاں بعد میں ایک عبادت گاہ بھی تعمیر کی گئ ۔

عبرانی تاریخ کے مطابق حضرت سلیمان کے دور میں جب بنی اسرائیل نے پورے فلسطین پر قبضہ کر لیا تو انھوں نے یہاں ٹیمپل ماؤنٹ جسے مسلمان حرم شریف بھی کہتے ہیں کے مقام پر 931 سے 920 قبل مسیح کے دوران ایک عبادت گاہ تعمیر کی جو  ہیکل سلیمانی

کہلائی۔  بعض مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ  اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ٹیمپل ماؤنٹ کے ارد گرد کے علاقہ  کو ماضی میں شہر داؤد علیہ اسلام بھی کہا جاتا تھا  آثار قدیمہ نے جب اس جگہ کھدائیاں کرنا شروع کیں تو انہیں   یہاں ہیکل سلیمانی کے آثار نہیں نہیں ملے۔ 

یروشلم میں قدیم روایات کے مطابق ہیکل سلیمانی کی تعمیر اوفل کے ٹیلے پر کی گئی تھی جو کہ شہر داؤد اور ٹیمپل ماؤنٹ کے درمیان واقع ہے۔ امریکن سائنسدان ارنسٹ مارٹن  جو آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھتا تھا اپنی تحقیق کی بنیاد پر ایک کتاب’’The Temples that Jerusalem Forgot‘‘ لکھی جو 1999ء میں شائع ہوئی۔ کتاب میں اس نے دعویٰ کیا کہ پہلا ہیکل سلیمانی اور دوسرا ہیکل بھی اوفل ٹیلے پر واقع تھے۔ لیکن یروشلم کے حاکم، شمعون حسمونی نے اپنے دور حکومت( 142 سے 135 ق م) کے دوران  نیا ہیکل اوفل ٹیلے کی بجائے حرم شریف میں تعمیر کرا دیا۔ بعدازاں  ہیرود اول نے اپنے دور حکومت 37 سے 4 قبل مسیح کے دوران اسی ہیکل کو مزید توسیع دی اور اسے عظیم الشان عمارت میں ڈھال دیا۔اگر ہم مزید تاریخی حالات کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بابل کے بادشاہ نبوکاد نزر نے جب 586 قبل مسیح میں یروشلم پر حملہ کیا تو اسنے شہر کیساتھ ساتھ ہیکل سلیمانی کو بھی مسمار کر دیا اور بوڑھے یہودیوں کے علاؤہ سب کو غلام بنا کر بابل اپنے ساتھ لے گیا  ۔ 539 قبل مسیح میں جب ایرانی بادشاہ سائرس اعظم نے بابل کو فتح کیا تو اسنے یہودیوں کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دینے کیساتھ ساتھ ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کی اجازت دے دی۔  

عبرانی تاریخ کیمطابق ہیرود اول نے حرم شریف میں ہیکل سلیمانی کی توسیع کی تھی لیکن ارنسٹ مارٹن اور اس سے اتفاق کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل کی تعمیر حرم شریف کی بجائے اوفل ٹیلے پر کی گئ تھی۔

اب بات کرتے ہیں یہود کے یروشلم سے انخلاء پر۔  312ء میں جب رومی بادشاہ قسطنطین نے عیسائیت قبول کی تو اسنے یروشلم میں چرچ تعمیر کروائے جسکی وجہ سے ٹیمپل ماؤنٹ کی اہمیت کم ہو گئ۔ مورخین کیمطابق رومن حکومت نے ٹیمپل ماؤنٹ میں کوڑا پھینکنے کی جگہ بنا دیا جسکا مقصد حضرت عیسی کی پیشنگوئی کو ثابت کرنا تھا کہ یہ ٹیمپل تباہ وبرباد ہو جائے گا۔ حضرت عیسی سے دشمنی کی بنا پر پروشلم میں رومن دور حکومت میں یہودیوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جانے لگا اور انکا سوشل بائکاٹ کیا جانے لگا  جسکی وجہ سے زیادہ تر یہودی عرب علاقوں،  ایران افغانستان، ہندوستان اور یورپ کے مختلف علاقوں میں منتقل ہو گئے۔ قسطنطین نے یہود کے یروشلم داخلے پر پابندی لگا دی۔ اور یہ پابندی اسلامی دور حکومت تک برقرار رہی۔  حضرت عمر کے دور خلافت میں جب  اسلامی فوج نے یہ شہر فتح کیا تو اس موقع پر شہر کا کوئی بھی انسان قتل نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی چرچ ڈھایا گیا۔ خلیفہ دوم، حضرت عمر فاروقؓ نے اہل شہر کو مکمل مذہبی و معاشرتی آزادی دے دی ۔تاریخ طبری میں درج ہے کہ اسی دورے میں خلیفہ دوم حرم الشریف (ماؤنٹ ٹیمپل) بھی تشریف لے گئے جہاں کاٹھ کباڑ اور گند جمع تھا۔ آپؓ نے صحابہ کرام کی مدد سے سارا کوڑا کرکٹ صاف کیا۔ اسی دوران مسجد ابراہیمی کی جگہ ایک عارضی مسجد تعمیر کی گئی اور بعد میں مسجد اقصی کی تعمیر ہوئ۔ آج بھی مسجد اقصیٰ کے بغل میں ایک کمرہ ’’مسجد عمرؓ‘‘ یا ’’محراب عمرؓ‘‘ کہلاتا ہے۔ اسوقت کے یہود نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی  کہ 200 خاندانوں کو یروشلم آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے 70 خاندانوں کو آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ یہ یہود شہر کے جنوبی حصے میں آباد ہوئے۔ یوں ایک ایک طویل مدت  کے بعد پہلی بار یہود یروشلم میں مقیم ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں جب 1546ء کو یروشلم میں زلزلہ آیا تو حرم شریف کے اس پاس کے تقریباً سارے مکانات منہدم ہو گئے۔ ترک سلطان سلیمان نے حرم شریف کے آس پاس کا علاقہ صاف کرایا اور یہودیوں کو وہاں عبادت کی اجازت دے دی سلطان نے سپین اور پرتگال سے نکالے گئے یہودیوں کو بھی یروشلم میں رہنے کی اجازت دے دی۔ آج مغربی دیوار جو کہ دیوار گریہ بھی کہلاتی ہے یہودیوں کا  دوسرا مقدس مقام ہے۔ یہود کا دعویٰ ہے کہ یہ دیوار اس چار دیواری کا حصہ ہے جو ہیرود اول نے دوسرے ہیکل کے گرد بنوائی تھی۔ لیکن بعض تاریخدان اور ماہرین آثار قدیمہ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ یہودیت میں  مقدس ترین جگہ ’’قدس القدس‘‘ (Holy of Holies) ہے۔ انکے نزدیک اس جگہ خدا تعالیٰ قیام فرماتاہے۔ یہ خاص  جگہ ایک خیمے (خیمہ اجتماع) کے اندر واقع تھی۔ عبرانی بائبل کی رو سے یہ خیمہ ہیکل سلیمانی کے مغربی کونے میں بنایا گیا تھا۔ اس خیمے میں تابوت سکینہ بھی رکھا تھا۔ تاہم نبوکدنصر کے حملے میں جب ہیکل سلیمانی تباہ ہوا تو  تابوت سکینہ وہاں سے غائب کر دیا گیا جسکاآجتک پتہ نہیں چل سکا۔

 عرب اسرائیل تنازعہ وڈیو

 


۔