Tuesday 28 July 2015

ہمیں است و ہمیں است ، لاھور لاھور ہے




ہمیں است و ہمیں است
(لاہور لاہور اے )



اگلی بار میں خود ہی ڈرائیور سیٹ پر ٹکی  ہو گیا اور گاڑی خود چلانے کی خواہش ظاہر کر دی، بحریہ میں دو    روئیہ سڑکوں کا  نظام کافی اچھا بنایا گیا ہے ،  بشرطیکہ آپ کو روڈ سنس  ہو۔ میں ڈرائیو کرتا ہوا  ایک زیبرا کراسنگ جو کہ ہرچوک سے کچھ  پہلے آتی ہے، پر ایک آدمی اور عورت کو رستہ دینے رک  گیا،   یہ دونوں شاید نئے نئے شادی زدہ تھے،  موصوف   سڑک کراس کرنے کی بجائے مجھے گھورنے لگے،  اور شاید دل ہی دل میں مجھے دو چار گالیاں بھی دی ہوں، موصوف  شاید سمجھ رہے تھے کہ میں انکی نوبیاہتہ زوجہ کو تاڑ نے کا ثواب لے رہا ہوں،  اور وہ بھی  دن دیہاڑے  اپنی زوجہ محترمہ کے زیرِ سایہ۔ جناب کے  تیور دیکھ کر میں نے اپنے روڈ سنس کو الوداع کہا  اور وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی اور اندرونِ دل   تہیہ کیا کہ  باقی کا روڈ سنس میں انگلینڈ  میں ہی جا  کر آزماؤں گا۔    مجھے ایک انگریز خاتون جو کہ پاکستان میں قریبا 10 سال کسی بینک میں کام کر چکی تھی اور لاہور اور کراچی کی ٹریفک سے بخوبی آشنا تھی ، کی ایک بات یاد آ گئی ، وہ   اپنے آفس جو کہ تیسری یا شاید چوتھی منزل پر تھا  اسکی کھڑکی سے لوگوں کو ٹریفک کے ہجوم  سے مجاہدانہ  انداز سے سڑک پار  کرتا دیکھ  کر حیران بھی ہوتی اور ساتھ ہی ساتھ لطف اندوز بھی،  اس نے دس سالوں میں مجال ہے  کوئی بھی ایسا بھیانک ایکسیڈنٹ دیکھا ہو  جو اس  قدر بے ہنگم اور   بے ہودہ ٹریفک کے نتیجے میں وقوع پزیر ہوا ہو۔ اس پر مجھے دل ہی دل میں خیال آیا کہ "بی بی تمہیں کیا پتا؟۔۔   پاکستان کا  واقعی  ہی میں اللہ ہی حافظ  ہےاور   ویسے بھی اس قوم نےبھی  ہر کام اللہ پر ہی چھوڑ رکھا ہے"۔
لاہور میں 3 دن قیام کے بعد ہمیں  اپنے شہر کوٹلی جانا تھا  جو کہ جموں کشمیر میں واقع  چاروں  اطراف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ایک نہایت خوبصورت وادی  ہے ۔  جہاں میرے والدین ہماری آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم لاہور سے دینہ اور میرپور سے ہوتے ہوئے کوٹلی کی طرف روانہ ہوئے،  میرپور سے آگے کوٹلی کی طرف سڑک کی حالت اتنی اچھی نہیں ہے کہ جس کی تعریف کی جا سکے۔  آزاد کشمیر میں سڑکوں کے نظام پرسرے سے  کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی ہے، جا بجا  سڑکوں کے کھنڈرات نظر آتےہیں جو کہ شاید ہماری  آزاد کشمیر  کی انتظامیہ نے موئنجو داہڑو اور ہڑپا سے  عاریتا  لیے ہیں تا کہ دنیا کو کشمیر کی 5000 ہزار سالہ پرانی  تاریخ کا ثبوت پیش کیا جا سکے اور دادِ تحسین وصول کی جا سکے۔ حکومت ِ آزاد کشمیر نے  اپنی ترکش میں جن وزیروں ، مشیروں اور  ضلعی انتظامیہ کے عہدیداران  کا چناؤ کیا ہے وہ اپنی مثال بھی آپ ہی ہیں۔ بعض تو بیرونِ ملک سے درآمد کیے گئےہیں جو   باکمال  اور فرض شناص اتنے کہ ملک کی ترقی ، عوامی مسائل حل کرنے اورساتھ ہی ساتھ 5000 ہزار سال پرانی تاریخ کو محفوظ کرنے  میں مصروفِ عمل ہیں۔   ہماری گاڑی آخر کار ایک طویل  اور تھکا دینے والی مسافت کے بعد بخیر و عافیت کوٹلی پہنچ  گئی   جہاں گھر پر میرے والدین  ، میری بہن،  اسکے بچے، میرے ماموں اور ماموں زاد  ہمارے انتظار میں تھے۔اپنے آبائی گھر پہنچ کر جیسے میری ساری تھکن ختم ہو گئی۔

No comments:

Post a Comment