Monday 27 July 2015

ہمیں است و ہمیں است



ہمیں است و ہمیں است               

اب کی بار والدہ صاحبہ انگلینڈ نہ آئیں، کہتی تھیں کہ اب سفر کرنے سے انکا جی گھبراتا ہے۔والد صاحب کے چلے جانے کے بعد میرا جی والدہ سے ملنے کو اور بھی بے چین ہو گیا۔  میں نے پاکستان جانے کا پروگرام بنا لیا ، اب سب سے بڑا مسئلہ بچوں کی سکول سے چھٹیوں کا تھا۔ میں نے سکول والوں کو ایسٹر کی چھٹیوں کے ساتھ مذید دو ہفتے کی چھٹیوں کے لیے درخواست دینا تھی۔   یوں تو سکول کے زمانے میں ہمیں انگریزی میں جو درخواست یاد کروائی گئی تھیں مجھے فر فر یاد تھیں لیکن ان سے میرا کام نہیں بن سکتا تھا۔ 
  لہٰذا کچھ اپنی مدد آپ کے تحت اور کچھ گوگل سے معلومات لے کر ایسی درخواست لکھنا شروع کی کہ سکول والے چھٹیاں دینے پر رضا مند ہو جائیں۔یہاں سکول بغیر کسی ضروری وجہ کے بچوں کو چھٹیاں  دینے کے قائل نہیں ہیں،  گرمیوں میں 6 ہفتے  کی چھٹیاں تو ملتی ہیں لیکن پاکستان میں اس بلا کی گرمی میں   جب لوڈ شیڈنگ بھی عروج پر ہو بچوں کو وطن کی سیر کرانا کہاں کی دانشمندی ہے۔والدہ صاحبہ کو 2 ماہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وطن آنے کا ارادہ ہے ، ان کی ہر صبح اسی انتظار میں تھی کب میں اپنے گھر کی دہلیز پر قدم رکھ کر اندر آؤں گا اور وہ مجھے گلے لگا لیں گی ، بچوں کو بھی خوب گرم جوشی سے ملیں گی اور ساتھ ہی ساتھ  یہ احساس بھی کہ وقت اتنا تیزی سے گزر جائے گا کہ پھر جانے کی تیاریاں شروع ہو جائیں گی۔ خیر یہ تو ہونا ہی ہوتا ہے۔

جہاز میں  بیٹھتے ہی   مجھے وہ دن یاد آ گیا کہ جب میں  4 سال پہلے وطن واپس جارہا تھا  تو ایک  آنٹی   نما ائیر ہوسٹس جو کہ میرے ساتھ کافی شفقت سے پیش آ رہی تھی ، بار بار مجھے ڈرنک آفر کرتی اور کچھ کھانے کا پوچھتی رہی۔ میں اسکی اس مہمان نوازی سے خاصہ متائثر بھی تھا اور ڈر بھی رہا تھا کہ اسے آخر ایک میں ہی  ملا ہوں  خاطر تواضع کے لیے۔بالآخر  لاہور ائیر پورٹ  پر اترنے سے آدھ گھنٹہ پہلے اس تمام   معاملے کی قلعی کھل گئی، وہ آنٹی ائیر ہوسٹس مجھ سے 25 پونڈز ادھار مانگ رہی تھیں ، کیونکہ موصوفہ نے جہاز کے اندر موجود ڈیوٹی  فری شاپ سے کچھ پرفیوم وغیرہ لیے تھے اور رقم کم پڑ گئی تھی۔ یہ ادھار کی رقم وہ جہاز سے باہر نکلتے ہی واپس لوٹا نے کا وعدہ کر رہی تھیں۔ میں نے اپنی شرٹ کی جیب میں ہاتھ مارا تو 5 پونڈ کا نوٹ نکلا، آنٹی ائیر ہوسٹس  اتنے  کو ہی غنیمت جان کر وہاں سے رفو چکر ہو گئیں اور پھر  نہ تو وہ اور نہ ہی کوئی ڈرنک نظر آیا۔

16 مارچ  کو علی الصبح ہم لاہور انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اترے، میں تقریبا چار سال کے بعد وطن واپس آ رہا تھا۔ ایک عجیب سے احساس نے مجھے گھیر رکھا تھا، ایئر پورٹ پر اترتے ہی ہمیں یورپ اور پاکستان کا فرق نظر آنے لگا تھا جو کہ میری بچیوں کے لیے بالکل ہی نویکلہ  تھا۔ وہ ہر چیز کو غور سے  سوالیہ  اور سمجھنے  کی  ملی جلی کیفیت  سے دیکھ رہی تھیں اور دل ہی دل میں تسلیم کر رہی تھیں کہ  پاکستان ایسا ہی ہوتا ہے۔ امیگریشن ڈیسک کے سامنے ہر آدمی نے اپنی ایک الگ لائن بنائی ہوئی تھی،  ڈیسک کے اوپر لکھے گئے پیغام اور ہدایات کو  شاید پڑھنے کا رواج نہ تھا یا  پھر شاید ایک ایسا تکلف تھا جس سے ہماری قوم نے ہمیشہ رو  گردانی کی ہے۔  بیرونِ ملک پاسپورٹ ہولڈر ز کے لیے ایک  الگ لائن  تھی جو کہ ساری اندرونِ ملک پاسپورٹ ہولڈر ز سے بھری پڑی تھی، خدا خدا کر کے ایک امیگریشن آفیسر نے ان لوگوں کو اپنی اپنی راہ دکھائی تو  امیگریشن ڈیسک تک  ہمیں بھی اپنی  باری کے کچھ آثار نمودار ہوتے دکھائی دینے لگے۔

امیگریشن  سے فراغت پا کر بیگیج ایریا میں سامان ڈھونڈنا بھی جوئے شیر لانے کا مترادف تھا،  سامان کے لیے ٹرالی لینے نکلا تو پتہ چلا کہ یہاں ٹرالیاں قلیوں کے پاس ہی ہوا کرتی  ہیں، بالآخر ایک  مسکین سی ٹرالی مل ہی گئی، جس پر سامان ڈھونڈ کر لادا اور ایئر پورٹ سے باہر نکل  گئے جہاں میرے برادرِ نسبتی اور خوشدامن
 صاحبہ انتظار میں کھڑے  ہماری راہ دیکھ رہے تھے۔   
                                     
                     
جاری

No comments:

Post a Comment