Wednesday 15 July 2015

عذاب کشمیر کا مسائلستان

عذاب کشمیر کا مسائلستان



آزاد جموں کشمیر کا خطہ ایک زرخیز  اور معدنی وسائل سے مالا مال خطہ ہے۔ اس خطے کے ان وسائل کو برؤے کار لا کر کثیر زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو سیراب کرنے والے تمام دریا کشمیر سے ہی نکلتے ہیں۔  ہہی منگلا ڈیم جس کے حوالے لوگوں نے اپنے پرکھوں کی جائیداد اور قبرستان کر دیے، اس  سے پیدا ہونے والی بجلی بھی پاکستان ہی کو روشن کرتی ہے اور بدلے میں ہمیں تربیلا کی بجلی دوگنی قیمت پر مہیا کی جاتی ہے۔  ہمارے جنگلات کی عمدہ ترین لکڑی پر بھی ہمارا حق نہیں ہے بلکہ یہ لکڑ پاکستان جاتی ہے اور پھر مہنگے داموں ھماری عوام کو فروخت کی جاتی ہے۔ میں اکثر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ہمارے معدنی ، آبی، اور جنگلات کے وسائل پر ہمارا حق نہیں ہے تو پھر کس کا ہے؟

آزاد کشمیر میں ترقیاتی کاموں کے طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے, کوٹلی کی سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں اور زرائع ابلاغ کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا تا رہا ہے۔2005 میں جب آزاد کشمیر میں جب زلزلہ کی تباہ کاریوں نے ہزاروں انسانی جانوں کو نگل لیا تو بیرون ملک فلاحی اداروں نے پاکستان حکومت سے درخواست کی کہ انھیں فلاحی کام کرنے کے لیے اور مسلسل رابطہ کے لیے اس خطہ میں  موبائل سروس فراہم کی جائے۔ تا کہ فلاح کے کام کو تیز کیا جا سکے۔  اس سے پہلے ایک متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے اس خطہ کو موبائل سروس سے اور انٹرنیٹ جیسی سہولیات سے محروم رکھا گیا تھا۔ آج ہمارے ہاں موبائل سروس تو موجود ہے لیکن جہاں پوری دنیا 4جی سے مستفید ہو رہی ہے وہا ں آزاد کشمیر میں ایک واجبی سی انٹرنیٹ کی سہولت موبایل فون پر موجود ہے جو قسمت اچھی ہو تو کبھی کبھار کام کرنے لگتی ہے۔ موبائل فون کمپنی انٹرنیٹ چارجز تو کاٹ لیتی ہے مگر انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے سےقاصر ہے۔ اسی طرح کی ایک وائر لیس انٹر نیٹ سروس جو کہ  ایوو  کہلاتی ہے کوٹلی میں انٹرنیٹ سروس مہیا کرتی ہے۔ یہ ایک نہایت تھکی ہوئی سروس ہے جس کے سگنل شہر کے کچھ حصوں میں سرے سے آتے ہی نہیں ہیں۔
  آج کی نوجوان نسل یہ سوال کرتی ہے کہ  آزاد کشمیر کو متنازعہ علاقہ سمجھ کر اسے ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں دھکیلا جا رہا ہے۔   پاکستان میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو دوسرے صوبوں اور ہمارے جیسے متنازعہ علاقوں کو خون چوس رہا ہے۔بلوچستان کی مثال بڑی واضح ہے، اس علاقے کے وسائل کو مفت میں استعمال کر کے بلوچستان کو انتہائی پس ماندہ رکھ کر نفرت کا بیج بویا گیا ہے نتیجتاَ  بلوچی علیحدگی پسند تحریک اب کھل کر سامنے آ چکی ہیں ۔

آزاد کشمیر کے علاقوں میں اگر لوگوں کے حالات اچھے ہوئے ہیں تو وہ تارکینِ وطن ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ وگرنہ ہمارے علاقوں میں تو نہ کوئی فیکٹری ہے   اور نہ ہی پڑہے لکھے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع۔  پاکستان اور آزاد کشمیر گورنمنٹ کو چاہئے کہ آزاد کشمیر کے مسائل کی طرف توچہ دے، وگرنہ نوجوان نسل پاکسان سے متنفر  ہو کر  خدا نہ کرے بلوچستان کر طرح کی ایک اور مصیبت پاکستان کے گلے  نہ ڈال دے ۔
           

No comments:

Post a Comment