چائنہ کا خلا سے شمسی توانائی کو زمین پر لانے کا منصوبہ
دنیا میں ایجادات کا سلسلہ تخلیق آدم سے لے کر آج تک اور تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ آ ج ہم جس ترقی یافتہ دور میں رہ رہے ہیں اسمیں جتنی بھی ایجادات ممکن ھوئ ہیں ان میں الیکٹریسٹی کا ایک اہم کردار رہا ھے اور آئندہ بھی رہے گا۔ بجلی یعنی الیکٹریسٹی کی ایجاد کو سائنسی میدان میں ایک معجزہ کہا جائے تو یہ بے جا نہ ھو گا۔ اس معجزے سے سائنسی میدان میں ان گنت معجزات نے جنم لیا جو انسانی عقل کو ماوف اور آنکھوں کو خیرا کر دینے والے ہیں۔
بجلی کے حصول کے لیے مختلف طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں جنمیں ہائڈرل پاور، نیو کلیئر پاور، ایندھن، ونڈ ملز، اور شمسی توانائی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ماہرین اب بجلی پیدا کرنے کےان زرائع کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں جو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو کم کرے بلکہ اسکی پیداواری لاگت بھی کم سے کم ھو۔ اس لحاظ سے شمسی توانائی ایک بہترین ذریعہ ھو سکتی ھے جو دنیا میں کافی مقبول ھو چکی ھے۔
اگر ہم شمسی توانائی سے بجلی حاصل کر کے اس سے اپنے
روزمرہ کے کام سر انجام دے سکتے ہیں تو اس شمسی توانائی کو بجائے زمین سے حاصل کرنے کے ہم سورج کے مزید قریب یعنی خلا کا رخ بھی کر سکتے ہیں تا کہ ہمیں دن رات اور ہر قسم کے موسمی تغیرات میں بھی اس شمسی توانائی کا حصول ممکن ھو سکے اور ہم اس سے استفادہ کرتے رہیں۔
شمسی توانائی کو خلاء میں حاصل کرنے اور اس تمام منصوبے کوپایاء تکمیل تک پہنچانے کے لیے چین نے سولر پاور سٹیشن کو خلاء میں بھیجنےکے مشن پر کام کرنا شروع کر دیا ھے۔ چائنہ کے خلائی ماہرین کی ٹیم جو اس منصوبے پر کام کر رہی ھے کا کہنا ھے کہ وہ 2021 سے 2025 کے درمیان خلاء میں سولر پاور سٹیشن بھجنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ یہ سولر سٹیشن زمین کے مدار سے 36000 کلو میٹر یعنی 22369 میل کی دوری پر ھو گا جو دن رات اور غیر مناسب موسمی حالات میں بھی ہر وقت سورج سے روشنی حاصل کر سکے گااور یوں چین دنیا کا واحد ملک کہلائے گا جو خلاء سے شمسی توانائی حاصل کر کے اسے زمین پر اپنے تصرف میں لا سکے گا۔اگر یہ پروجیکٹ کامیاب ھو جاتا ھے تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا پروجیکٹ ھو گا جو خلاء سے حاصل ھونے والی لا متناہی
شمسی توانائی کو ری نیو ایبل انرجی میں ڈھال کر اسے زمین پر استعمال کےقابل بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
لیکن سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ خلا سے شمسی توانائی کو کیسے زمین پر لا کر کارآمد بنایا جا سکتا ھے۔ اس سوال کے جواب میں چینی ماہرین کا کہنا ھے کہ وہ خلاء سے شمسی توانائی کو لیزر ٹیکنالوجی یا مائکرو ویو ٹیکنالوجی کے زریعے زمین پر بھیج کر اسے کارآمد اور قابل تصرف بناسکتے ہیں۔ خلاء سے شمسی توانائی حاصل کرنے سے متعلق اگر مزید معلومات حاصل کی جائیں تو ہمیں معلوم ھوگا کہ چین شاید وہ پہلا ملک نہیں ہے جس نے خلاء سے شمسی توانائی کو زمین پر استعمال کرنے کا تصور پیش کیا ھو۔ 1950 میں امریکی سانسدانوں نے بھی شمسی توانائی کو خلاء سے کنٹرول کر کے زمین پر استعمال کرنے کا تصور پیش کیا تھا لیکن اس پر بہت کم کام کیا جا سکا۔ ناسا کے ایک سابق ریسرچر جان مینکنز نے ھوائ جزیرہ میں مایوی کے مقام پر موجود ایک پہاڑ کی چوٹی سے شمسی توانائی کو کنٹرول کر کے ایک بیم کے زریعے 92 کلو میٹر دور ایک مقام پر پہنچانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا، وائرڈ نامی ایک جریدے نے اس تجربے سے متعلق لکھا کہ جان مینکنز تقریباً 20 واٹ تک کی انرجی مطلوبہ مقام تک پہنچانے میں کامیاب ھو سکا جس سے صرف ایک بلب ہی روشن کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ جریدہ اس بات کا اعتراف بھی کرتا ھے کہ اگر اس تجربہ میں ایک خطیر رقم صرف کی جائے اور سولر پینلز کی تعداد میں۔ اضافہ کرنے سے خاطرخواہ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
اگر چینی سائنسدان اور ریسرچرز خلاء سے شمسی توانائی کو لیزر یا مائیکرو ویو کےزریعے زمین پر لانے میں کامیاب ھو جاتے ہیں تو اس میں کو شک نہیں کہ وہ قرہء ارض پر موجود بجلی پیدا کرنے کے زرائع کو اس ری نیوایبل انرجی سے تبدیل کر سکتے ہیں اور لا محالہ یہ انکی بہت بڑی کامیابی تصور کی جائے گی۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ بات اتنی آسان بھی نہیں ، اس تجربے میں بہت زیادہ پیچیدگیاں ہیں جنکے لیے ایک خطیر رقم درکار ہے اور اسکے ساتھ ساتھ زمین پر ایک ایسی بہت بڑی فیسیلیٹی بھی درکار ھو گی جو خلاء میں حاصل کی گئی توانائ کو وصول کرنے اور اسے رینیوایبل انرجی میں تبدیل کر نے کا کام انجام دے سکے۔
دنیا میں ایجادات کا سلسلہ تخلیق آدم سے لے کر آج تک اور تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ آ ج ہم جس ترقی یافتہ دور میں رہ رہے ہیں اسمیں جتنی بھی ایجادات ممکن ھوئ ہیں ان میں الیکٹریسٹی کا ایک اہم کردار رہا ھے اور آئندہ بھی رہے گا۔ بجلی یعنی الیکٹریسٹی کی ایجاد کو سائنسی میدان میں ایک معجزہ کہا جائے تو یہ بے جا نہ ھو گا۔ اس معجزے سے سائنسی میدان میں ان گنت معجزات نے جنم لیا جو انسانی عقل کو ماوف اور آنکھوں کو خیرا کر دینے والے ہیں۔
بجلی کے حصول کے لیے مختلف طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں جنمیں ہائڈرل پاور، نیو کلیئر پاور، ایندھن، ونڈ ملز، اور شمسی توانائی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ماہرین اب بجلی پیدا کرنے کےان زرائع کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں جو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو کم کرے بلکہ اسکی پیداواری لاگت بھی کم سے کم ھو۔ اس لحاظ سے شمسی توانائی ایک بہترین ذریعہ ھو سکتی ھے جو دنیا میں کافی مقبول ھو چکی ھے۔
اگر ہم شمسی توانائی سے بجلی حاصل کر کے اس سے اپنے
روزمرہ کے کام سر انجام دے سکتے ہیں تو اس شمسی توانائی کو بجائے زمین سے حاصل کرنے کے ہم سورج کے مزید قریب یعنی خلا کا رخ بھی کر سکتے ہیں تا کہ ہمیں دن رات اور ہر قسم کے موسمی تغیرات میں بھی اس شمسی توانائی کا حصول ممکن ھو سکے اور ہم اس سے استفادہ کرتے رہیں۔
شمسی توانائی کو خلاء میں حاصل کرنے اور اس تمام منصوبے کوپایاء تکمیل تک پہنچانے کے لیے چین نے سولر پاور سٹیشن کو خلاء میں بھیجنےکے مشن پر کام کرنا شروع کر دیا ھے۔ چائنہ کے خلائی ماہرین کی ٹیم جو اس منصوبے پر کام کر رہی ھے کا کہنا ھے کہ وہ 2021 سے 2025 کے درمیان خلاء میں سولر پاور سٹیشن بھجنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ یہ سولر سٹیشن زمین کے مدار سے 36000 کلو میٹر یعنی 22369 میل کی دوری پر ھو گا جو دن رات اور غیر مناسب موسمی حالات میں بھی ہر وقت سورج سے روشنی حاصل کر سکے گااور یوں چین دنیا کا واحد ملک کہلائے گا جو خلاء سے شمسی توانائی حاصل کر کے اسے زمین پر اپنے تصرف میں لا سکے گا۔اگر یہ پروجیکٹ کامیاب ھو جاتا ھے تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا پروجیکٹ ھو گا جو خلاء سے حاصل ھونے والی لا متناہی
شمسی توانائی کو ری نیو ایبل انرجی میں ڈھال کر اسے زمین پر استعمال کےقابل بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
لیکن سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ خلا سے شمسی توانائی کو کیسے زمین پر لا کر کارآمد بنایا جا سکتا ھے۔ اس سوال کے جواب میں چینی ماہرین کا کہنا ھے کہ وہ خلاء سے شمسی توانائی کو لیزر ٹیکنالوجی یا مائکرو ویو ٹیکنالوجی کے زریعے زمین پر بھیج کر اسے کارآمد اور قابل تصرف بناسکتے ہیں۔ خلاء سے شمسی توانائی حاصل کرنے سے متعلق اگر مزید معلومات حاصل کی جائیں تو ہمیں معلوم ھوگا کہ چین شاید وہ پہلا ملک نہیں ہے جس نے خلاء سے شمسی توانائی کو زمین پر استعمال کرنے کا تصور پیش کیا ھو۔ 1950 میں امریکی سانسدانوں نے بھی شمسی توانائی کو خلاء سے کنٹرول کر کے زمین پر استعمال کرنے کا تصور پیش کیا تھا لیکن اس پر بہت کم کام کیا جا سکا۔ ناسا کے ایک سابق ریسرچر جان مینکنز نے ھوائ جزیرہ میں مایوی کے مقام پر موجود ایک پہاڑ کی چوٹی سے شمسی توانائی کو کنٹرول کر کے ایک بیم کے زریعے 92 کلو میٹر دور ایک مقام پر پہنچانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا، وائرڈ نامی ایک جریدے نے اس تجربے سے متعلق لکھا کہ جان مینکنز تقریباً 20 واٹ تک کی انرجی مطلوبہ مقام تک پہنچانے میں کامیاب ھو سکا جس سے صرف ایک بلب ہی روشن کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ جریدہ اس بات کا اعتراف بھی کرتا ھے کہ اگر اس تجربہ میں ایک خطیر رقم صرف کی جائے اور سولر پینلز کی تعداد میں۔ اضافہ کرنے سے خاطرخواہ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
اگر چینی سائنسدان اور ریسرچرز خلاء سے شمسی توانائی کو لیزر یا مائیکرو ویو کےزریعے زمین پر لانے میں کامیاب ھو جاتے ہیں تو اس میں کو شک نہیں کہ وہ قرہء ارض پر موجود بجلی پیدا کرنے کے زرائع کو اس ری نیوایبل انرجی سے تبدیل کر سکتے ہیں اور لا محالہ یہ انکی بہت بڑی کامیابی تصور کی جائے گی۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ بات اتنی آسان بھی نہیں ، اس تجربے میں بہت زیادہ پیچیدگیاں ہیں جنکے لیے ایک خطیر رقم درکار ہے اور اسکے ساتھ ساتھ زمین پر ایک ایسی بہت بڑی فیسیلیٹی بھی درکار ھو گی جو خلاء میں حاصل کی گئی توانائ کو وصول کرنے اور اسے رینیوایبل انرجی میں تبدیل کر نے کا کام انجام دے سکے۔
No comments:
Post a Comment