Saturday, 28 September 2019

اقوام متحدہ، تقریریں اور ہمارے اعمال



اقوام متحدہ، تقریریں اور ہمارے اعمال


کل جنرل اسمبلی میں ھونے والی تقریب میں  خانصاحب کی تقریر بڑی اچھی اور مدلل تھی ۔ خانصاحب نے اسلام کا مقدمہ بھی لڑا، پاکستان کو کیسے دہشت گردی کے گرداب میں جھونکا گیا اس پر مفصل بات کی اور ھندوستان جو اسوقت دنیا کی سب سے بڑی جمھوریت کے راگ الاپ رہا ھے  کا مکروہ چہرہ بھی دنیا کے سامنے پیش کیا۔ 
ایک کشمیری ھونے کے ناطے سے میرا فوکس کشمیر ایشو پر ہی ھو گا،  دیکھنا یہ ھے کہ اس سے  پاکستان اور  مسئلہ کشمیر کو کتنا فایدہ ھوسکتا ھے۔ کیا اس تقریر سے دنیا اب پاکستان کو دہشت گردی سے منصوب کرنا چھوڑ دے گی؟، یا مسئلہ کشمیر حل ھو جائے گا؟   
خانصاحب کے مطابق ھندوستان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک اور پلوامہ ھو بھی ھو سکتا ھے۔ اب یہاں پر تھوڑا سا توقف فرمائیں اور نیوٹرل ھو کر یہ سوچیں!  کہ کشمیر میں جہادی گروپس کو پاکستان کی ہر طرح کی حمایت حاصل تھی، اگر پلوامہ طرز کا ایک اور حملہ ھوتا ھے تو دنیا ترکی، ایران یا چین پر شک نہیں کرے گی بلکہ اس کے تانے بانے وہیں ملائے جائیں گے جہاں سے پہلے نام نہاد مجاھدین کو مدد ملتی رہی ھے۔ اب دنیا خانصاحب کی بات پر کیسے یقین کر لے کہ پاکستان  اب اچھا بچہ بن گیا ھے اور اسکا کسی قسم کی جہادی گروپس سے تعلق نہیں ھے۔ 
جب خانصاحب کشمیر میں ھونے والے ہیومین رائٹس وائلیشن اور حق خود اختیاری  کی بات کر رہے تھے  تو دنیا اس شش و پنج میں مبتلا تھی کہ ھندوستان تو کشمیر میں ہیومین رائٹس کی وائلیشن کر رہا ھے مگر  آزاد کشمیر میں بھی اپنے حق رائے دہی کو مانتے ہوئے خودمختار کشمیر کے حامی اور نعرے مارنے والوں کو غائب یا گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا جاتا ھے  تو پھر پاکستان جس حق خود ارادیت اور ہیومین رائٹس وائلیشن  کی بات کرتا ھے وہ کس بلا کا نام ھے؟ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا اپنی عقل سے کام لیتی ہے  نہ کہ ادھار لی گئ عقل سے۔  جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ازاد کشمیر کے حالات سے دنیا واقف نہیں ھے تو وہ لوگ ابھی تک کنویں سے باھر ہی نہیں نکل سکے، انہیں اگر کنویں سے باھر نکال بھی دیا جائے تو گھبرا کر واپس کنویں میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ 
مسئلہ کشمیر گزشتہ 71 سال سے جاری ھے لیکن۔ حالیہ سچویشن آرٹیکل 370 اور 35a کے ہٹائے جانے کے بعد پیدا ھوئ ھے جو کہ کرفیو کی صورت میں اب بھی قائم ھے۔ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے بھارت نے کشمیر کو باقاعدہ طور پر اپنا حصہ بنا لیا ھے جو کشمیریوں کو کسی بھی صورت میں نامنظور ھے لیکن جنرل اسمبلی میں خانصاحب نے  370 کے ہٹائے جانے اور کشمیریوں پر شب خون مارنے کی بھر پور مذمت کرنے کی بجائے صرف کرفیو سے پیدا ھونے والی مشکلات ، اور کرفیو کے ہٹائے جانے پر کشمیریوں کا رد عمل سے آگاہ کیا ھے۔ حالانکہ ھونا تو یہ چاہئے تھا کہ آرٹیکل 370 کو بنیاد بنا کر ھندوستان کے اس عمل پر ھندوستان کو خوب اڑے ھاتھوں لیا جاتا اور دنیا کو باور کرایا جاتا کہ بھارت کا یہ عمل ناقابل قبول ہے۔۔مگر کیسے۔۔۔ دنیا یہ بھی جانتی ھے کہ بھارت نے جو کام آج کیا ھے وہی کام پاکستان نے معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کے ساتھ 1949 میں کر لیا تھا۔ 
آپ دنیا میں جتنا مرضی شور مچاتے رہیں، لمبی لمبی اور جزباتی تقریریں کرتے رہیں لیکن دنیا آپکو آپکے اعمال کی وجہ سے پہنچانے گی۔ قول و فعل میں اگر تضاد نظر آئے تو دنیا آپکی باتوں کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لے گی۔ ہمارے وکیل عرف بڑے بھای جان صاحب کے پاس مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ پاکستان ہی کی وکالت سے یہ مسئلہ حل ھو گا اور پچھلے 71 سالوں سے یہی کرتے آئے ہیں ، لیکن دنیا ھے کہ ہمارے وکیل کو خاطر ہی میں نہیں لاتی،  نالائق سے نالائق انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ھے کہ اگر آپکا وکیل کمزور ھو تو تبدیل کر کے کوئ اور وکیل کیا جا سکتا ھے یا مقدمہ خود بھی لڑا جا سکتا ھے۔ اگر ہمیں واقعی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وکیل ہی کی ضرورت ہے تو پھر پہلے ایسے وکیل سے جان چھڑانی پڑے گی جو آپکا مقدمہ اس شرط پر لڑ رہا ہے کہ جیتنے یا ہارنے کی صورت میں آپکی  جائداد کے مالک وکیل صاحب ہی ھوں گے۔ اپکو کسی ایسے وکیل کی تلاش کرنا ھو گی جو نیک نیتی سے اپکا مقدمہ عوام کی خواہشات کے مطابق لڑے، وکیل ہی کرنا ھے تو پاکستان کی بجائے ترکی کو وکیل کر لینے میں کیا حرج ھے۔۔۔۔ لیکن میں سمجھتا ھوں کہ ہمیں  خود اپنے آپ کو اس قابل بنانا ھو گا کہ ہم اپنا مقدمہ خود پیش کر سکیں۔  دنیا کی کوئ بھی عدالت مظلوم کے بڑے بھائی یا مامے کی بجائے مظلوم کی بات کو زیادہ توجہ سے سنے گی۔۔تمام حربے اب استعمال کیے جا چکے ہیں،  مسئلہ کشمیر کے  لیے جب تک حکومت آزاد کشمیر کو مکمل خود مختار ریاست تسلیم کر کے اسے اپنا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کرنے نہیں دیا جاتا مسئلہ کشمیر اسی طرح لٹکا رہے گا۔   اگر اسکے انقلابی حکومت بھی قائم کرنا پڑ جائے تو میں یہ سمجھتا ھوں کہ ہمیں اس کے لیے کسی بھی پس و پیش سے کام  نہیں لینا چاہئے۔ 
توقیر لون۔

No comments:

Post a Comment