Tuesday, 12 March 2019

میجر جنرل آصف غفور کی نصیحت

 جنرل آصف غفور کی نصیحت
Pic.courtesy news18


 کچھ مہینے پہلے ڈی جی ائ ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا پاکستانی میڈیا برادری کو مخاطب کرتے ھوئے یہ بیان سامنے آیا کہ  " آپ ملک سے متعلق چھ ماہ کے لیے مثبت خبریں شئیرکریں " انکا یہ بات کہنے کا مقصد اسلیے تھا کہ اگر چھ ماہ تک  ملکی حالات حاضرہ سے متعلق مثبت خبریں شئیر کرنے سے ملک کے اندرونی خلفشار اور ہیجانی کیفیت میں  کمی آئے گی اور بیرون ملک پاکستان کا امیج اچھا ھونے سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ھو سکتا ھے۔ 

جنرل آصف غفور کی یہ نصیحت صرف میڈیا ھاوسز کے لیے نہیں تھی بلک سوشل میڈیا پر ایکٹو ان فیک اکاؤنٹس چلانے والوں کے لیے بھیذ تھی جو اسوقت ملک میں بدامنی کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔  اب رہی بات مثبت خبروں کی تو سانحہ ساہیوال تو مثبت خبر ھونے سے رہا۔ملک میں پنپنے والی  بےضابطگیاں اور نت نئے سکینڈلز کی پردہ پوشی کرنا،  ایسے عناصر کی معاونت کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کہلایا جا سکتا۔ 

امثبت خبروں کی دوڑ میں کہ جہاں انڈین پائلیٹ کو امن  جیسچر کے طور پر رہا کرنے کی خبریں ھر میڈیا چینل پر سر گرم رہیں اور پاکستان نے عالمی برادری سے خوب داد وتحسین وصول کی،  وہاں ہی کنٹرول لائن پر انڈین گولہ باری سے مرنے والے لوگوں کی خبریں ایک منفی یا غیر مثبت خبر کے زمرے میں شامل ھو نے لگیں۔۔ کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ اور گولہ باری سے جانی و مالی نقصان کنٹرول لائن کی دونوں جانب ھو رہا ھے اور اسکا مسلسل نشانہ کنٹرول لائن پر دونوں اطراف میں بسنے والے کشمیری بن رہے ہیں۔ لوگ اس گولہ  باری سے اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ وہ اپنے گھروں پر امن کا سفید پرچم لہرانے پر مجبور ھو گئے ہیں تاکہ دونوں افواج کو پیغام جا سکے کہ ہم بھی امن کے خواہاں ھیں۔ کنٹرول لائن پر انڈین افواج فائرنگ کریں یا  پاکستانی افواج جوابی کاروائی کریں، اگر اس منظر کو ڈرامائی انداز میں دیکھا جائے تو کشمیریوں کو جو رول ادا کرنے کو دیا گیا ہے وہ انایکسٹراز ، اداکاروں کا ھے جنھیں دوران جنگ  ہر حال میں مرنا ہی ھوتا ہے۔  کہانی آگے چلتی ہے اور یوں کہانی میں نئے کردار مرنے کے لیے شامل کر دئیے جاتے ہیں۔  

اس جنگی ماحول سے تنگ ا کر اھل علاقہ کی طرف سے دونوں اطراف میں بڑھتی ہوئ کشیدگی اور گولہ باری  کو روکنے کے لیے اوازیں بلند ھونا شروع ھو چکی ہیں جنکی گونج سوشل میڈیا تک سنائی دینے لگی ہے۔  لیکن افسوس کہ کنٹرول لائن پر کھیلی جانے والی خون کی ھولی نہ تو  مثبت خبر بن سکی  اور نہ ہی کنٹرول لائن پر لاشیں اٹھانے والے امن کے متلاشی کسی مثبت خبر کی زینت بن سکے۔ 

No comments:

Post a Comment