Tuesday, 17 September 2019

پہولے بادشاہ



پہولے بادشاہ


ہم میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جن کے پاس دلیل جب ختم ھو جاتی ھے تو گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں یا پھر اپنے مخالف کے خلاف بغیر سیاق و سباق کے باتیں پھیلا کر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غداری کے فتوے جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا مقصد سچائ کو جاننا نہیں ھوتا بلکہ بھولے پن میں وہ ان قوتوں کا ساتھ دے رہے ھوتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے قابض رہنا چاہتیں ہیں۔  ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ھے۔
آج ہم فاطمہ جناح کا نام نہایت ادب و احترام سے لیتے ہیں ان کی عزت و تکریم کرتے ہیں لیکن ماضی میں اگر دیکھا جائے تو ہم نے ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا وہ کوئ اتنا لائق داد و  تحسین نہیں تھا۔ فاطمہ جناح نے جب  اس دور کے حکمرانوں کو آئینہ دکھایا تو اسوقت کے حکمران نے انکےخلاف محاذ کھڑا کر دیا ۔ انکے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش شروع کر دی گئ  ان پر غداری کے فتوے دیے گئے بلکہ یہاں تک کیا گیا کہ ایک کتیا کے گلے میں لالٹین جو کہ ان کا انتخابی نشان تھا ڈال کر سڑکوں پر گھمایا گیا۔ ہمیں تو اپنی تاریخ پڑھنے کا شاید حوصلہ بھی نہیں ھے کیونکہ  ہمیں یہ سوچنے پر ندامت محسوس ہوتی ہے کہ آخر  وہ کون لوگ تھے جو اسوقت کے حاکم  کا ساتھ دے کر اس گھناؤنی سازش میں شریک جرم تھے اور  وہ کیسے لوگ ھوئے ھوں گے جو اس سارے واقعے پر تماش بین بنے رہے؟ یہ سازشی ٹولہ اور سب تماش بین  بھی تو پاکستان کے ہی رہنے والے تھے ، لیکن۔۔۔۔  خاموش رہے۔ 
ہمیں یہ سوچ کر زیادہ تعجب شاید نہ ھو کیونکہ ہمارا
ماضی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ھے،  اگر واقعہ کربلا میں  معرکہ حق و باطل کو  دیکھا جائے تو ہمیں وہ مسلمان بھی دکھائ دیں گے جو اسوقت یزیر کی صفوں میں تھے اور امام عالی مقام  کے خلاف فتوے دینے میں مصروف عمل تھے۔
سوچنے کا مقام ہے کہ اگر آج اپکو اپنے معاشرے میں تعصب، لوگوں کے حقوق کا غصب ھونا، معاشی استحصال، بلا وجہ غداری کے فتوے، اختلاف رائے پر منفی پروپیگنڈے، کسی کو اپنی رائے رکھنے کا حق نہ دینا۔ قوموں کو اپنی طاقت سے غلام بنائے رکھنا، انکے سیاہ و سفید کا مالک بن جانا، منافقت، جھوٹ اور اقربا پروری نظر نہیں آ رہی ھے یا آپ اسکے خلاف بات کرنے سے کتراتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ  آپ بھی کہیں ان بھولے بادشاہوں میں سے تو نہیں ہیں جن کے بارے میں آج ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ!  وہ کیسے لوگ ہوئے ھوں گے جو امام عالی مقام کی بجائے یزید کی صفوں میں شامل تھے۔۔سوچئے گاضرور۔

آخر میں یہ کہوں گا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ میری تحریر پاک فوج کے خلاف ہیں تو انہیں یہ معلوم ھو جانا چاہئے کہ میرا حرف تنقید اور اختلاف ان اقتدار پسند طاقتوں سے ھے جو آئین پاکستان کی پامالی کرتے ھوئے اقتدار پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ماضی میں اور اب بھی  براجمان ہیں۔ میرے والد اور والدہ دونوں کی طرف سے پاک فوج اور فضائیہ میں اعلی خدمات انجام دیتے رہے ہیں جن پر مجھے اب بھی فخر ھے اور انکے اعلیٰ اقدار اور اخلاق، م لیے ہمیشہ مشعل راہ رہیں گے۔ جو لوگ ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں انکے لیے پیغام ہے کہ تنقید کا جواب دلیل اور اعلی ظرفی سے دیا جاتا ھے نہ کہ منفی پروپیگنڈے کرنے سے۔

No comments:

Post a Comment