محصورین کی عید
کیا عید منائی لوگوں نے
جہاں گھر بازار مقفل ہیں
جہاں شہر ھوئے ویرانے کی نظر
جہاں مسجد ممبر سب بند ہیں
بس غاصب فوج کا پہرا ھے
ھے حکم کوئ نہ نکلے باھر
ھر بیمار اب سوچتا ھے
کیسے دوا پہنچے گی انہیں
جہاں ھر دکاں مقفل ھے
ھر سو کرفیو کا ڈیرا ھے
بچوں کی بلکتی آوازیں
جو دیکھنے سے اب قاصر ہیں
کیا ماں انہیں اب یہ سمجھائے
کیوں صبح کا رنگ اب کالا ھے
دہلی سے چلی اک لڑکی اب
رخت سفر یوں باندھتی ھے
توڑ کے پہرے اب، سب وہ
دل ہی دل میں یہ ٹھانتی ھے
شوگر کے مرض میں والد کو
اک انسولین پہنچانے پر
کیا گزری اس پہ، وہ جانتی ھے
کشمیر تیر ی قسمت ہے ایسی
تجھے اپنوں، غیروں نے گھیرا
ترے نام پہ جاں جو وار گئے
انکی بیواؤں، یتیموں کا
ان بے وارث ضعیفوں کا
ظلم کی کالی راتوں میں
جب ٹپ ٹپ آنسو گرتا ہے
ان معصوموں کے نام پہ جب
کچھ کھیل تماشے والے لوگ
ترے نام کی ڈگڈگی باندھتے ہیں
یوں انکا چولہا جلتا ھے
توقیر لون
No comments:
Post a Comment