Friday, 6 September 2019



یزید ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک نظام کا نام ھے


محرم الحرام کا مہینہ ہے اور یہ مہینہ ہمیں جناب عالی
مقام حضرت امام حسین کے  واقعہ کربلا جو کہ اصل میں معرکہ حق و باطل تھا کی  یاد دلآتا ہے۔ حق و باطل کی یہ جنگ  ازل سے ابد تک ہمیشہ جاری رہے گی ۔   سرخرو ھونا ھے اگر تو زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں امام  حسین  کے نقش پا کی پیروی کرنی چاہئے کیونکہ یہی حق والوں کا شیوہ رہا ھے۔
واقعہ کربلا کا بغور مطالعہ کیا جائے تو در حقیقت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کسی ایک فرد کے خلاف جہاد نہیں کیا بلکہ یزیدکے اس نظام کے خلاف جہاد کیا تھا  جو کہ اسلامی نظام کے برخلاف تھا حسین حق پر تھے اور یزید باطل پر تھا ۔ آج اگر اس واقعے کو دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ھو گا کہ وہ یزیدی نظام اور سوچ آج بھی ھمارے معاشرے میں اور ہماری ریاست میں موجود ھے، جس کے ھاتھ تھوڑی بہت طاقت آ جائے وہ یزیدیت پر اتر آتا ہے۔
ہمیں تو حسین کے نقش قدم پر چلنا ھے اور چلتے رہیں گے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ھو  گا کہ آج کے یزید کون ہیں جب تک ہم یہ معلوم نہیں کر سکتے ہمارے لیے امام حسین کے راستے ، حق کے راستے پر چلنا دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ھو گا۔ لیکن یہ معلوم کرنا اتنا مشکل بھی نہیں، بات سادہ سی ھے کہ وہ کون سے عناصر ہیں  جو لوگوں کی زبان بندی  کر رہے ھیں، جو لوگوں کو بات بات پر غداری   کے فتوے جاری کر رہے ہیں۔  جو لوگوں کی بات سننے کی بجائے انکا گلا گھونٹ رہےہیں اور جو لوگوں کی آوازوں کو انکے جسم سمیت غائب کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ھو گا کہ یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
آج کے یزیدی نظام  کو معلوم ہے کہ جن آوازوں کو وہ دبا رہا ھے بہت کم ہیں مگر اسکے یزیدی نظام کے لیے ایک آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ھو سکتی ہیں۔ اس یزیدی نظام کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ھر ممکن کوشش کررہا کہ ھے کہ  اصل حقائق شعور کو عوام تک ہی نہ پہنچنے دیا جائے تا کہ یہ جو چاہیں کرتے رہیں۔
آئے دن جن آوازوں کو دبایا جا رہا ہے یا لوگوں کو غائب کیا جا رہا ہے  ان کو اگر دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ھو گا کہ یہ کوئ بس ڈرائیور، کنڈکٹر، ریڑھی بان، خوانچہ  فروش، یا پھر حلوائی ، حجام یا موچی وغیرہ   نہیں بلکہ معاشرے کے اعلی تعلیم یافتہ اور ایسے باشعور افراد ہیں جو اپنے  لیےنہیں بلکہ اپنے اہل علاقہ اور خطے کے حقوق کی بات کرتے ہیں، جو اس ملک میں غلط اور متعصب نظام کے خلاف بات کرتے ہیں اور حق کی بات کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے افکار و خیالات سے  عوام کو شعور دے سکتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کی جبری گمشدگیاں اور غائب ھو جانا ایک عام سی بات ھو چکی ھے۔ اس ملک کی تاریخ میں کئ دانشوروں،  شاعروں اور حق گو شخصیات پر غداری کے فتوے لگائے گئے انہیں پاںند سلاسل کیا گیا اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ھے۔ حال  ہی میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر انعام بھٹی کا غائب کیا جانا اور اسپر ریاستی اداروں کا چوں تک نہ کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ھے جو کہ یزیدی نظام کا منہ بولتا ثبوت ھے۔ 
یہ ملک تو اسلام کے نام پر لیا گیا تھا مگر بد قسمتی سے یہاں جس نظام کا زور رہا ھے وہ حسینیت کے بر خلاف رہا ھے۔ لوگوں کو انکے  اختلاف رائے پر یا تنقید پر زبان بندی یا غائب کر دینا کہاں کا انصاف ھے۔ ریاست میں  عدالتیں موجود ہیں لیکن پھر بھی کچھ یزیدیت کے پیروکار اپنی مخالف آوازوں سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ انہیں  قانونی گرفت میں لانے کی بجائے غائب کر دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ یزیدی نظام اس بات سے نالاں ہے کہ اس ملک کا یہ اعلی تعلیم یافتہ دانشور طبقہ اس ملک  کے بس ڈرائیور، کنڈکٹر، حجام، موچی، مستری، اور مزدور پر کہیں اس یزیدی نظام کی اصلیت کا پول نہ کھول دے۔ 
 اگر ان لوگوں پر اتنا ہی سنگین الزام ھے تو ان پر عدالتوں میں مقدمات کیوں نہیں کیے جاتے،  انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، ان لوگوں کو بھی اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع دیا جائے اور اگر ان پر الزام  ثابت ھوتا ھے تو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ یہ یزیدی نظام کے پیروکار صرف اور صرف یزیدی عدالتوں کے قائل ہیں یہاں ملزم کو اپنی صفائ میں بولنے نہیں دیا جاتا ۔۔۔ بس غائب کر دیا جاتا ھے۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ھے
اسلام زندہ ھوتا ھے ہر کربلا کے بعد

No comments:

Post a Comment