Wednesday, 4 March 2020

ھذا من فضل ربی





 ھذا من فضل ربی



نماز میں دوسرا سلام پھیرتے ہی اپنے بائیں جانب کاشی کی نظر  ایک شخص پر پڑی تو  اسے ایسا محسوس ھوا جیسے شاید وہ اسے جانتا ھو۔ دعا سے فراغت کے بعد کاشی  کی اس شخص سے علیک سلیک ھونے پر معلوم ھوا کہ رشید اور کاشی دونوں  سکول میں ایک ہی کلاس میں پڑھا کرتے تھے۔ رشید کا خاندان اپنے کام کی وجہ سے لاھور منتقل ھو چکا تھا اور کافی عرصہ کے بعد اپنے ایک نجی کام کی غرض سےاپنے آبائی شہر میں اسکا آنا ھوا تھا۔ رشید کو اپنے آبائ شہر میں واضح تبدیلی نظر آرہی تھی۔ یہ چھوٹا سا شہر پھیل کر اب کافی بڑا اور گنجان آباد ھو چکا تھا، ہر طرف نئ دکانیں اور شاپنگ پلازے کھل چکے تھے  اور لوگوں کے طرز زندگی میں بھی نمایاں تبدیلی آ چکی تھی۔  کاشی کے پوچھنے پر رشید نے اسے بتایا کہ اسکے والد کے نام 10 مرلے زمین کا ایک پلاٹ تھا جسے وہ بیچ کر اپنی بہن کی شادی کر کے اپنی زمہ داری سے سبکدوش ھونا چاھتا ھے۔ لیکن یہاں پہنچ کر اسے معلوم ھوا کہ اس زمین کے کچھ حصے پر کسی نے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ھے اور قبضہ گروپ کا تقاضا ھے کہ پانچ لاکھ رقم کے عوض وہ قبضہ چھوڑنے کو تیار ہیں۔  
یہ سن کر کاشی کی آنکھوں میں چمک سی آ گئ اور دل ہی دل میں سوچنے  لگا  کہ رزق میں اضافے کے تعویذ  کی برکت نے تو کمال ہی کر دیا ، آج تو رزق خود چل کر اسکے پاس آیا ھے۔ کاشی ایک بینک میں کام کرتا تھا تنخواہ بھی کافی معقول تھی جس سے اسکےگھر کا نظام نہایت احسن طریقے سے چل رہا تھا۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ وہ رضاکارانہ طور پر لوگوں کے ان مسائل کہ جن سے اسکے رزق میں مزید اضافہ کی توقع ممکن ھوتی تھی، کی گتھیاں سلجھانے میں بھی انکی کافی معاونت کرتا تھا۔ کاشی نے رشید کو ایک مفید مشورہ دیتے ھوئے کہا  "  قبضہ کو چھڑانے کے لیے بار بار عدالت کے چکر لگانے اور پیسہ ضائع کرنے کی بجائے قبضہ گروپ سے رقم طے کر کے ان سے اپنی جان چھڑوا لو تو زیادہ بہتر ھو گا وگرنہ تمہارا کون  بار بار لاھور سے یہاں آ کر تاریخیں بھگتے گا"۔ رشید نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اسے کہا " میں اس زمین کا اصل مالک ھوں اور انکا یہ قبضہ ناجائز ھےجسکے وہ پانچ لاکھ مانگ رہے ہیں "۔ لیکن کاشی نے اسے سمجھایا کہ بھائ جان آج کل یہاں ایسا ہی چل رہا ھے، لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں مقدمے میں الجھا کر اصل مالک سے جتنی ممکن ھو سکے  رقم بٹور لی جاتی ھے۔
 کاشی نے رشید کو اپنے گھر چائے پر مدعو کیا، رشید کوئ بہانا بنا کر اسے ٹالنا چاہتا تھا مگر  کاشی کے اصرار پر  رشید اسکے ساتھ اسکے گھر چل پڑا ۔  گھر میں داخل ھونے سے پہلے رشید کی نظر گیٹ پر لگی ھوئ سنہرے رنگ کی ایک تختی پر پڑی جس پر سیاہ رنگ میں  ''ھذا من فضل ربی''  لکھا ھوا تھا۔  رشید کاشی کا دو منزلہ گھر جس پر سفید سنگ مر مر لگا ھوا تھا اور ڈرائنگ روم جہاں ہر چیز قرینے سے رکھی گئ تھی کو  دیکھ کر کافی متائثر ھوا۔  دونوں خوش گپیوں میں مصروف ھو گئے اور اپنے زمانہ طالب علمی کو یاد کرنے لگے ۔ چائے پینے کے بعد رشید نے  کاشی سے رخصت چاہی، الوداع کرتے ھوئے کاشی نے اس سے کہا " تم اچھی طرح سوچ لو اور  میں قبضہ گروپ کی ٹوہ لیتا ھوں کہ وہ کیا چاہتے ہیں"۔ 
دوسرے دن مسجد کے باھر کاشی کی ملاقات دوبارہ رشید سے ھوئ جس پر کاشی رشید کو خوشخبری سنائ  کہ آج ہی اسکی بات قبضہ گروپ سے ھوئ ھے اور وہ 4لاکھ کی رقم لینے پر شاید راضی ھو جائیں۔ ساتھ ہی رشید کو یہ بھی بتایا کہ زمینی تنازعات کے مقدمات پر 4 لاکھ سے زیادہ کی رقم خرچ ھو سکتی ہے اور وقت علیحدہ سے برباد ھو گا۔  رشید کچھ سوچ میں پڑ جاتا ھے اور پھر رقم دینے کی حامی بھر لیتا ھے۔ 
اگلے دن کاشی،  رشید اور قبضہ گروپ کے سرغنہ قیوم  کو اپنے گھر چائے پر مدعو کیا جہاں کچھ دیر کی ٹال مٹول کے بعد  معاملات طے پا جانے پر کاشی اپنے ہم جماعت دوست کو اسکی زمین کا قبضہ دلانے میں کامیاب ھو گیا۔ دوسرے دن شام کو کاشی نے اپنےگھر آ کر اپنے کمرے کی  الماری کھولی  جہاں ایک کونے میں چسپاں رزق میں فراوانی کے تعویذ کے پاس پہلے سے ہی کچھ رقم پڑی تھی ، کاشی نے اپنی جیب میں موجود رقم نکال کر گنی اور پورے پچاس ھزار روپے پہلے سے  موجود پیسوں کے ساتھ رکھتے ہوئے اپنی بیوی سے  خوشی خوشی کہا، " ماشاءاللہ رزق میں اضافہ کرنے والا وظیفہ اور تعویذ انتہائ کار گر ثابت ھو رہے ہیں"۔ جس پر اسکی بیوی کافی خوش ھوئ اور اسے بتایا  کہ آج بھائ قیوم کا بیٹا کھجوریں  اور زم زم کا پانی دے گیا تھا کہہ رہا تھا کہ یہ ابو نے بھجوائ ہیں وہ ایک ہفتہ پہلے حج سے واپس لوٹے ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment