Friday, 20 March 2020

ھرڈ ایمیونٹی، کرونا کا علاج




"کرونا کا علاج "ھرڈ امیونٹی



ماہرین کےمطابق اگر ایک مرتبہ لوگوں کی اکثریت کرونا 
وائرس کا شکار ھو  جائے تو یہ وائرس خود بخود ختم ھو سکتا ھے۔
کرونا وائرس پر قابو پانے کے بنیادی طور پر تین طریقے ہیں ایک یہ کہ لوگوں کے میل ملاپ اور اجتماعات پر سخت پابندی عائد کر دی جائے اور تمام لوگوں کا کرونا وائرس ٹیسٹ یقینی بنایا جائے جس سے اسکی منتقلی کو روکا جا سکتا ھے۔ لیکن یہ اب مشکل اسلیے ھو چکا ھے کہ یہ دنیا کے 100 سے زاید ممالک میں پھیل چکا ھے ۔
دوسرا طریقہ ایسی ویکسین کی ایجاد ھے جو مکمل طور پر کارگر ثابت ھو۔ گو کہ تجربات تیزی سے جاری ہیں لیکن فی الوقت یہ تاخیر کا شکار ھے۔ 
اس وائرس پر قابو پانے  کا  تیسرا طریقہ یہ ھے کہ ہم اسوقت تک انتظار کریں کہ جب تک یہ لوگوں کی اکثریت کو اپنا شکار نہیں بنا لیتا اور لوگ خود بخود اسکے خلاف قوت مدافعت پیدا نہیں کر لیتے۔  لیکن اس  طریقہ کا نقصان یہ ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ  جانوں کے ضیاع کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔جو کہ شاید کوئ موزوں حل نہیں ھو گا۔ تیسرے طریقے کے مطابق اگر  اس وائرس کو لوگوں میں پھیلنے  دیا جائے تو جو لوگ اس سے متائثر ھونگے اگر وہ زندہ بچ جاتے ہیں تو وہ اس وائرس کے خلاف خود بخود قوت مدافعت پیدا کر لیں گے اور اس طرح یہ وائرس فطری طریقے سے ختم  ھو جائے گا یا لوگوں کی صحت پر زیادہ اثر انداز نہیں ھو سکے گا۔ کیونکہ اسکے  پھیل جانے اور اسکے نتیجے میں  لوگوں کی اکثریت کا اسکے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لینے کی وجہ سے یہ اپنا نیا شکار ڈھونڈنے ناکام ھوجائے گا۔
ماہرین کے مطابق اس وائرس کا  بے قابو ھو کر دنیا میں پھیل جانا ایک بھیانک منظر نامہ پیش۔کر سکتا ھے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی تقریباً 60 فیصد آبادی ایک سال کے اندر اندر اس سے متائثر ھو سکتی ھے۔ یہ اعدادوشمار وبائ امراض کے ماہرین کی طرف سے دیے گئے ہیں جنکے مطابق  اعداد وشمارکے اس نقطہ  پر پہنچ کر لوگوں کی اکثریت کی یا اجتماعی قوت مدافعت  یعنی ھرڈ ایمیونٹی کے نظریہ کو اپنا کام شروع کر دینا چاہئے۔
برطانیہ کے سائنس ایڈوائزر پیٹرک ویلنس نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ھے کہ برطانیہ میں ھرڈ ایمیونٹی یعنی لوگوں کی اکثریت میں فطری طور پر اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت کو پنپنے دیا جائے تو ہی اس وائرس کی پھیلاؤ کو ختم کیا جا سکتا ھے۔ 
ھالینڈ کے پرائم منسٹر نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ھوئے کہا ہے  کہ کرونا وائرس کی پھیلاؤ کو کم سے کم کر کے ایک کنٹرول طریقے سے وائرس کے خلاف گروپ ایمیونٹی کو قابل عمل بنایا جائے تا کہ اس وائرس کو مستقبل میں بے ضرر بنایا جا سکے۔
موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ھرڈ ایمیونٹی شاید ایک بہتر اقدام ثابت  نہ ہو کیونکہ اسکی وجہ سے لوگوں کی اکثریت کے بیمار ھونے کا خطرہ ھے اور برطانیہ کے  نیشنل ہیلتھ سروسز پر ایک دم ناقابل برداشت بوجھ پڑ سکتا ھے۔ ان حالات کے پیش نظر برطانوی حکومت نے وائرس پر قابو پانے اور پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تاخیری حربے کو اپناتے ہوئے تا حکم ثانی سکول بند کرنے، عوام کو گھر سے کام کرنے کی تاکید کی ھے اور بغیر وجہ کے باھرنکلنے اور اجتماعات  کی حوصلہ شکنی کا فیصلہ کیا ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے تاخیری حربہ سے فایدہ یہ ھو گا کہ نیشنل ہیلتھ سروسز پر شاید اتنا بوجھ نہ پڑے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو  بچانا ممکن ھو سکے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ کورونا وائرس کی وباکے پھیلاؤ پر قابو پا لینے   کے بعد بھی شاید اس وائرس کے خاتمہ کے لیے  ہمیں  ھرڈ ایمیونٹی  کا سہارا لینا پڑے۔ 
 بہت سے لوگ شاید ھرڈ ایمینوٹی کے نام سے واقف نہ ھوں۔ ھرڈ ایمیونٹی ایسا عمل ہے کہ جس میں لوگوں کی اکثریت کسی جراثیم کے خلاف فطری طور پر قوت مدافعت پیدا کر لیتی ھے اور وہ اس جراثیم کے خطرے سے محفوظ ھونے کے ساتھ ساتھ اسکے عدم پھیلاؤ کا باعث بنتے ھوئے اسکا تدارک میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔  جیسے اگر کسی کو  ایک بار بچپن میں  چکن پاکس  ھو جائے تو وہ اپنی بقیہ زندگی میں اس سے محفوظ ھو جانے کے ساتھ ساتھ  اسکے پھیلاو کا باعث نہیں بنتا۔ یعنی وہ اس جراثیم کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لیتا ھے۔ 








No comments:

Post a Comment