ہمیں است و ہمیں است
(نئے مظفر آباد سے کوٹلی تک)
میرے دوسرے
سفر کے اسباب جو اچانک ہی پیدا ہو گئے تھے، کوٹلی سےایبٹ آباد اور پھر مظفر آباد
سے ہوتے ہوئے واپس کوٹلی تک کا تھا۔ میری بھانجی جو میڈیکل کالج سے گھر چھٹیوں پر
آئی ہوئی تھی اب اسکو واپس کالج چھوڑنا
تھا۔میں ، میرا ماموں زادکزن ، اپنے بھانجے
اور بھانجی کے ہمراہ اسلام آباد
اور ایبٹ باد کی جانب روانہ ہو گئے۔
جوں ہی ہم آزاد کشمیر سے اسلام آباد پہنچے تو پہلی چیز جو ہم نوٹ کرتے ہیں
وہ سڑکوں کا نظام ہے۔ ہماری خستہ حال سڑکوں کے مقابلہ میں اسلام آباد کی بہترین
سڑکوں پر جب گاڑی چلتی ہے تو فرق صاف نظر
آنے لگتا ہے۔ اسلام آباد سے ایبٹ آباد تک سڑکیں کشادہ اور
سفر انتہائی آرام دہ تھا۔ راستے میں
مجھے اپنے دوست حسنین گیلانی صاحب کا فون آ گیا کہ مظفر آباد سے لازمی ہوتا ہوا جاؤں ۔ ویسے بھی مجھے ان سے ملے ہوئے 14 سال ہو چکے
تھے۔ موقع کو غنیمت جانا اور چل پڑے مظفرآباد کی طرف۔ میرے ماموں زاد پیسنجر سیٹ
بیٹھ کر گاڑی کی چابی میرے حوالے کر دی۔ رات
ہو چکی تھی اور آگے کا سفر بھی پہاڑی تھا۔ جوں جوں ہم مظفر آباد کی طرف بڑھ
رہے تھے تو ں توںاندھیرا گہرا اور
پہاڑ مزید بلند ہو رہے تھے۔ اتنے بلندی پر ڈرائیونگ کا شاید میرا یہ پہلا تجربہ تھا ۔ جب ہم مظفر آباد
کے قریب پہنچے تو پہاڑ کی چوٹی سے مظفر آباد شہر نہایت خوبصورت اور روشنی میں ڈو با ہوا لگ رہا تھا۔
مظفر آباد
پہنچ کر اپنے دوست گیلانی صاحب سے فون پر ڈائرکشن لی اور ولج ویو ریسٹورنٹ پہنچ
گئے جہاں وہ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ریسٹورنٹ دریائے جہلم جو کہ وتاستا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے کنارے
واقع ہے ۔ یہاں سیاحوں کے لیے نہایت خوبصورت ہٹس
بنائے گئے تھے ، رات کو جب ہر طرف
خاموشی طاری ہو جاتی ہے تو پھر دریا کے
پانی کا شور کانوں میں رس گھولنے والی
موسیقی کا سماں باندھ کر ایک پوتر قوالی
کا روپ دھار لیتا ہے۔ رات کا کھانا ہم نے دریا کے کنارے لگی ہٹس میں بیٹھ کرکھایا، اس جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے کا جو لطف اور مزہ مجھے اس
رات کو حاصل ہو ا ، ایسا شاید ہی
مجھے کہیں اور مل سکے۔
حسنین گیلانی صاحب کا گھر ولج ویو ریسٹورنٹ سے کچھ زیادہ دور نہیں
تھا۔ ہم نے رات وہاں بسر کی اور صبح ناشتے کے بعد اپنے مہربان دوست سے رخصت چاہی
تا کہ مظفر آباد شہر کی کچھ سیر کی جائے۔
مجھے یاد ہے کہ میں آخری بار مظفر آباد تب آیا تھا جب میں آٹھویں جماعت کا طالب
علم تھا۔ ہم اپنے سکول کی طرف سے بطور سکاؤٹس گئے تھے۔ اس دور کے مظفر آباد اور آج
کے مظفر آباد میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ 2005 کے زلزلہ کی وجہ سے جب سارا مظفر آباد ملیا میٹ ہو گیا اور لا تعداد انسانی جانیں لقمہ ء اجل بن گئی
تو اہلیانِ آزاد کشمیر کے علاوہ
دوسرے ممالک کی رزاکارانہ ٹیمیں بھی کشمیر آئیں، جنھوں نے بڑھ چڑھ کر فلاح بہبود کا کام کیا اور
کئی لوگوں کو ملبے کے ڈھیر سے زندہ نکالا گیا۔ بیرون ملک ہمارے لوگوں نے دل
کھول اپنے بھائیوں کی مالی مدد کی تا کہ وہ جلد سے جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہو
سکیں۔ زلزلہ کے بعد غیر ملکی امداد کے
باعث مظفر آباد شہر کو دوبارہ سے تعمیر کیا گیا، کشادہ سڑکیں ، نئے پل بنائے
گئےاور شہر کو نئے سرے سے پھر آباد کیا گیا۔ اب جو مظفر آباد میری آنکھوں کے سامنے تھا وہ پرانے مظفر آباد سے
تقریبا" 50 سال آگے نکل چکا تھا۔
مظفر آباد شہر
سے نکل کر ہم کوہالہ کی جانب نکل پڑے تا
کہ مری اور اسلام آباد سے ہوتے ہوئے ہم کوٹلی کو سدھاریں۔ کوہالہ میں
دریائے جہلم کنا رے سڑک کی حالت بہت ہی خراب تھی۔ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑک
کا آدھا حصہ ٹوٹ کر نیجے گر چکا تھا اور ہمیں سڑک پر بمشکل اتنی ہی جگہ ملی کہ جہاں سے گاڑی کے ٹائر گزر سکیں۔ کسی نے ایک
کھڈے میں کچھ پتھر رکھ دیے تھے تا گاڑی ٹائر اسکے اوپر سے گزر سکے اور گاڑی کھڈے
میں نہ پھنس سکے۔ میں نے اور میرے بھانجے نے باہر نکل کر اپنے ماموں زاد کو گاڑی
وہاں سے نکالنے میں گائڈ کیا اور اللہ اللہ کر کے وہاں سے جتنی جلدی ہو سکے رفو
چکر ہونے کی فکر کرنے لگے۔ کیونکہ سڑک کے اگلے حصے میں بھی دراڑ آ چکی تھی جو کہ
کسی خطرناک حادثہ کے انتظار میں تھی نیچے جہلم طغیانی کا باعث اپنے پورے جوبن سے
بہہ رہا تھا اسے دیکھ کر مجھے ایکدم کسی
انجانے خوف نے گھیر لیا، میں فورا " وہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔
آگے چل کر
نہایت دلفریب مناظر دیکھنے کو ملے، بلند و بالا پہاڑ ایسے لگ رہے تھے جیسے آسمان کو چھو رہے ہوں ہم چھوٹے چھوٹے گاؤں اور بازاروں میں سے گزرے۔ ایک جگہ بازار میں تازہ کلچے بن
رہے تھے۔ میں گاڑی روک کر دکان پر چلا گیا جہاں سے میں نے خستہ کلچے ، مکی کی روٹی
اور میٹھی روٹی خرید لایا۔ یہ ایک چھوٹا
سا بازار تھا جہاں سے بمشکل دو گاڑیا ں ایک ساتھ گزر سکتی تھیں۔ اسے دیکھ کر مجھے
ہجیرہ کا بازار یا دآ گیا۔ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی شاید انتظامیہ اس علاقہ کو اپنے کاغذوں سے فارغ
کر چکی تھی۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ آزاد کشمیر کی
95 فیصد سڑکوں کی حالت ایسی ہی
کیوں ہے؟ آخر کیا وجہ ہم لوگ اس
21ویں صدی میں بھی اسقدر ترقی نہ کر سکے کہ اچھی سڑکیں ہی بنا لیں۔ میں نے موبائل
فون سے گھر فون کرنے کوشش کی تا کہ اپنی خیریت کی اطلاع دے دوں، لیکن نیٹ ورک کوریج نہ ہونے کی وجہ سے کال
کنیکٹ نہ ہو سکی۔
جیسے ہی ہم
مری کی حدود میں داخل ہوئے تو میرے موبائل
کے سگنل بھی پورے آ گئے اور انٹرنیٹ بھی 4جی کی سروس
شو کرنے لگا۔ میں نے گھر فون کر کے والدہ صاحبہ کو خیریت کی اطلاع دی تو انکی تسلی
ہو گئی۔ اب ہماری گاڑی فراٹے بھر رہی تھی
اور ہم اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سڑک نہایت کشادہ اور بہت اچھی بنائی
گئی تھی اسے دیکھ کر مجھے یورپ کی سڑکوں کا گمان ہونے لگا۔ مری سے اسلام آباد کا
سفر بہت ہی عمدہ تھا اور ہم باتوں باتوں میں اسلام پہنچ بھی گئے۔ اسلام آباد پہنچ کر ہم نے یہی سوچا کہ پہلے پیٹ پوجا پھر
کام دوجا۔ ہم ایک ریسٹورنٹ میں گئے جہاں کی بریانی کافی مشہور تھی۔ اندر داخل ہوئے
تو دیکھا کہ اندر تو تل رکھنے کو بھی جگہ نہیں تھی۔ خیر کچھ دیر انتظار کے بعد
ہمیں جگہ مل ہی گئی اور ہم نے بیٹھ کر آرام سےپیٹ تپسیا کی۔
کھانے سے
فراغت کے بعد ہم نے اپنی کا رخ کوٹلی کی
طرف کر لیا اور اسلام آباد کی خوبصورت سڑکوں کو پیچھے چھوڑتے چلے گئے۔ راستے میں میں نے دوبارہ موبائل سے فون کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود،
کہوٹہ سے آگے جب آزاد کشمیر کی طرف بڑھتے جائیں تو موبائل کے سگنل غائب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
شاید بلندو بالا پہاڑوں کی چوٹیوں سے انہیں ڈر لگتا ہے۔ یہاں سے کوٹلی تک کا سفر
انتہائی تھکا دینے والا ہے۔ خدا خدا کر کے ہم کوٹلی کی حدود میں داخل ہوئے تو جان
میں جان آئی۔ راستے میں کوٹلی سے کچھ پہلے بڑالی کا مقام پر کورین فرم کے تعاون سے ڈیم بنانے کا کام زور و شور
سے جاری تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس ڈیم سے 100 میگا واٹ تک
بجلی پیداکی جا سکے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بجلی کوٹلی کے حصے میں
بھی آئے گی؟ کچھ دیر یہاں رک کر کام کا
جائزہ لیا اور چند تصاویر بھی اتاریں۔
شام ہو چکی
تھی اور ہم کوٹلی شہر میں داخل ہو چکے تھے۔ جب گھر پہنچے تو والدہ صاحبہ برآمدے
میں بیٹھی ہماری آمد کی راہ دیکھ رہی تھیں۔ ہمیں دیکھ کر بسم اللہ کیا اور متمئن
ہو گئیں کہ ہم خیریت سے گھر پہنچ گئے ہیں۔ وہ ناراض ہو رہی تھیں کہ بار بار فون
کرنے پر سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا ہم خود ہی فون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع ہی دے دیتے۔لیکن والدہ کو
کون سمجھائے کہ ہمارا علاقہ متنازعہ علاقہ ہے۔ یہاں موبائل فون کے سگنل بھی اجازت
کے بغیر نہیں آ سکتے۔
No comments:
Post a Comment