Monday, 7 August 2017

کشمیر موٹے شیشے کی عینک سے

 کشمیر موٹے شیشے کی عینک سے

مسئلہ کشمیر اس قدر گھمبیر ہوتا جا رہا ہے کے ہمیں خود آج تک اس بات کا علم نہ ہو سکا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو وزیر اعظم فاروق حیدر صاحب کا  کہ ان کی  طرف سے کی گئی پریس کانفرنس کے ردِ عمل میں چند  پاکستانی میڈیا اور سیاسی شخصیات  نے   ہمیں یہ بتایا کہ اصل میں ہمیں کس چیز کی مانگ کرنی چاہیےاور  دراصل کشمیری جو 1931 سے   جس تحریک کے لیے  جدو جہد کر رہے ہیں وہ انتہائی غلط ہے ، اسکا تو سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔
 ہم اپنے  ان  ہم درد دوستوں کے انتہائی مشکور   ہیں ، کہ انھوں نے ہمیں ہماری سب سے بڑی خوش فہمی  کی حقیقت  سے آگاہ کر دیا۔ ہمیں تو آج تک یہ پتہ ہی نہ تھا کہ آخر ہم کیا چاہتے ہیں؟۔ پاکستان کے بڑے بڑےخود اختیاری  دانشوروں نے میڈیا میں  ظہور فرما کرجو کہ   حقِ خود ارادیت  کی  اصطلاح سے ہی نابلد ہیں   آزاد کشمیرکے وزیرِ اعظم کے خلاف گھٹیا زبان استعمال  کرنے  سے ذرہ بھر بھی گریز نہ کیا ۔ یہ دراصل ان تمام کشمیریوں کے لیے کھلا پیغام ہے   جوحکومتِ  پاکستان کو اپنا محسن مانے ہوئے ہیں، کہ تم کشمیریوں کی  کیا مجال  کہ تم اپنے  مستقبل کا فیصلہ خود بہ ہوش و حواس کر سکو،  تم لوگ  تو اسقدر حقیر ہو کہ جب چاہیں تمہیں ذلیل کر دیں۔  یہ وہی منافق  ہیں کہ جو خود تو خود اختیاری طور پر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر ، سینئر صحافی، اور سینئر لیڈراور نہ جانے کیا کیا القاب  تو لگا لیتے ہیں، لیکن کسی قوم کے حقِ خود اختیاریت یا خود ارادیت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔یہ ہم سے کہتے ہیں کہ  کشمیری قوم کو اپنے حقِ خود ارادیت کی اصطلاح کو اب حقِ خود پاکستانیت میں تبدیل  کر دینا چاہیے۔
کشمیر میں  کیے گئے تمام سروے  رپورٹ کے مطابق عوام کی معروف رائے یہی سامنے آئی  ہے کہ کشمیری ایک آزاد ملک چاہتے ہیں۔ یہی سوال جب انڈیا کے لوگوں سے پوچھا گیا تو زیادہ تر لوگوں نے کشمیر کی آزادی کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس کے بر عکس  ہمارے  کچھ پاکستانی بھائی کشمیر کی آزادی کے حق میں باالکل منفی رویہ رکھتے ہیں اور کشمیر ی انکی نظر میں ایک حقیر اور  ادنیٰ غلام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس تمام پسِ منظر کے پیشِ نظر ریاست جموں کشمیر کی عوام کو اب ایک عدد موٹے شیشے کی عینک درکار ہے جس سےوہ اپنی  بینائی کی سمت کو درست کر سکیں۔  جی ہاں ہمیں ایک ایسی ہی عینک چاہیئے جو تصویر کے اصل رخ کو ہمارے پردہ بصارت تک  اس کمال سے پہنچائے کہ ہمارا دماغ اس منظر کی حقیقتِ حال  کا بخوبی تعین کر سکے۔

2 comments: